Adevertisement

The Sultan’s Justice: A Tale of Wisdom and Righteousness

Once upon a time, in a prosperous kingdom, a wise and just Sultan was deeply engrossed in the affairs of his subjects. His court buzzed with petitioners, each seeking redress for their grievances. Amidst this usual scene, a peculiar sight unfolded.

Adevertisement

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک خوشحال ریاست میں ایک دانا اور انصاف پسند سلطان اپنی رعایا کے معاملات میں گہرائی سے مصروف تھا۔ اس کے دربار میں درخواست گزاروں کا ہجوم ہوتا، ہر کوئی اپنے دکھوں کا مداوا چاہتا تھا۔ اس عام منظر کے بیچ ایک عجیب و غریب صورتحال سامنے آئی۔

An aged woman, her face etched with the lines of sorrow, quietly entered the court. She stood silently before the Sultan, her presence a stark contrast to the usual clamor. The Sultan, noticing her stillness, extended his gaze, inviting her to speak.

Adevertisement

ایک ضعیف العمر عورت، جس کے چہرے پر غم کی لکیریں گہری تھیں، خاموشی سے دربار میں داخل ہوئی۔ وہ سلطان کے سامنے بغیر کچھ کہے کھڑی تھی، اس کی موجودگی عام شور و غل کے برعکس تھی۔ سلطان نے اس کی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے، اپنی نظریں اس کی طرف بڑھائیں، گویا اسے بولنے کی دعوت دے رہا تھا۔

Her silence, however, persisted. Growing concerned, the Sultan broke the quietude with a gentle yet firm voice. “Old woman,” he began, “silence serves no purpose here. Unburden your heart and tell us the injustice that has befallen you. We promise to act swiftly and decisively.”

Adevertisement

تاہم، اس کی خاموشی برقرار رہی۔ فکرمندی بڑھنے پر، سلطان نے نرم مگر پختہ لہجے میں خاموشی توڑی۔ “اے ضعیف العمر عورت،” اس نے آغاز کیا، “یہاں خاموشی کا کوئی فائدہ نہیں۔ اپنا دل ہلکا کر اور ہمیں بتا کہ تجھ پر کیا ظلم ڈھایا گیا ہے۔ ہم فوری اور فیصلہ کن کارروائی کا وعدہ کرتے ہیں۔”

The woman’s eyes, filled with unshed tears, finally met the Sultan’s. In a voice barely above a whisper, she expressed her apprehension. “Respected Sultan,” she murmured, “it is not speaking that I fear, but the repercussions of revealing my plight publicly. My honor, fragile as it is, would be irrevocably stained. I am a widow, without a male protector. Should this be known, my home would be overrun by ruthless men.”

عورت کی آنکھیں، جو نہ بہنے والے آنسوؤں سے بھری تھیں، آخر کار سلطان کی نگاہوں سے ملیں۔ بمشکل سنائی دینے والی آواز میں، اس نے اپنی گھبراہٹ کا اظہار کیا۔ “عزت مآب سلطان،” وہ سرگوشی میں بولی، “مجھے بولنے کا ڈر نہیں، بلکہ میرے دکھ کو سب کے سامنے ظاہر کرنے کے نتائج کا خوف ہے۔ میری عزت، جو پہلے ہی نازک ہے، ناقابل تلافی طور پر داغدار ہو جائے گی۔ میں ایک بیوہ ہوں، اور میرا کوئی مرد سرپرست نہیں۔ اگر یہ بات معلوم ہو جائے تو میرا گھر بے رحم لوگوں کے ہجوم سے بھر جائے گا۔”

The Sultan, understanding the gravity of her words, reassured her with unwavering conviction. “Fear not,” he declared, “you stand in the court of the Sultan, a place of justice and protection, not moral decay. All present here are my loyal subjects. Any who dare to disrespect this sanctity shall face severe consequences. Speak freely, for your truth will find a just hearing.”

سلطان نے اس کی باتوں کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے اسے اٹل یقین کے ساتھ تسلی دی۔ “ڈر مت،” اس نے اعلان کیا، “تو سلطان کے دربار میں کھڑی ہے، یہ انصاف اور تحفظ کی جگہ ہے، نہ کہ اخلاقی گراوٹ۔ یہاں موجود تمام لوگ میرے وفادار ہیں۔ جو بھی اس تقدس کی بے حرمتی کی جسارت کرے گا، اسے سخت نتائج بھگتنا ہوں گے۔ آزادی سے بول، کیونکہ تیری سچائی کو منصفانہ سماعت ملے گی۔”

Yet, the woman’s apprehension remained. “Respected Sultan,” she pleaded softly, “this is a matter of my dignity, one I can only confide in you.” Moved by her tearful plea and unwavering resolve, the Sultan rose from his throne and retired to his private chambers. His trusted vizier, understanding the silent command, immediately approached the woman. With a discreet whisper, he guided her towards the Sultan’s private audience room, then returned to his post. The woman, casting a swift glance at the curious onlookers, followed silently into the palace.

لیکن، عورت کی گھبراہٹ برقرار رہی۔ “عزت مآب سلطان،” اس نے نرمی سے التجا کی، “یہ میری عزت کا معاملہ ہے، ایک ایسا معاملہ جسے میں صرف آپ کو بتا سکتی ہوں۔” اس کی آنسو بھری التجا اور پختہ ارادے سے متاثر ہو کر، سلطان اپنے تخت سے اٹھا اور اپنے نجی کمرے میں چلا گیا۔ اس کا قابل اعتماد وزیر، خاموش حکم کو سمجھتے ہوئے، فوراً عورت کے قریب آیا۔ ایک محتاط سرگوشی میں، اس نے اسے سلطان کے نجی ملاقات کے کمرے کی طرف رہنمائی کی، پھر اپنی جگہ پر واپس آ گیا۔ عورت نے تجسس سے دیکھنے والوں پر ایک سرسری نگاہ ڈالی اور خاموشی سے محل میں داخل ہو گئی۔

Inside the secluded chamber, the woman stood before the Sultan, her head still bowed. The Sultan, observing her patiently, broke the silence once more. “Old woman,” he reiterated, “we comprehend your anguish. We know not the depth of your predicament. However, time is a precious commodity. We are burdened with many responsibilities. Do not waste our time with your silence. Please, disclose your suffering so we may act swiftly to alleviate it.”

خلوت خانہ میں، عورت سلطان کے سامنے کھڑی تھی، اس کا سر اب بھی جھکا ہوا تھا۔ سلطان نے اسے صبر سے دیکھتے ہوئے، ایک بار پھر خاموشی توڑی۔ “اے ضعیف العمر عورت،” اس نے دہرایا، “ہم تمہاری پریشانی سمجھتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ تمہاری مشکل کتنی گہری ہے۔ تاہم، وقت ایک قیمتی چیز ہے۔ ہم پر بہت سی ذمہ داریاں ہیں۔ اپنی خاموشی سے ہمارا وقت ضائع نہ کرو۔ براہ کرم، اپنا دکھ ظاہر کرو تاکہ ہم اسے دور کرنے کے لیے فوری کارروائی کر سکیں۔”

With a deep sigh, the woman began to narrate her tale of woe. “Respected Sultan,” she began, “my husband passed away some years ago, leaving me with seven daughters. I work as a cook in noble households, and with what little I earn, I manage to sustain my family. I never complained, living modestly with my daughters. A few years back, my eldest daughter fell ill. A midwife revealed she was expecting. But she was unmarried! I was shocked, distraught. I interrogated her, even resorting to harsh words, to uncover the truth, but she vehemently denied any wrongdoing, insisting she had never even ventured to the street corner alone. And I, her mother, knew in my heart that she was incapable of such an act. As time passed, I became certain of her innocence. A few days later, she gave birth to a beautiful son, but the father remained a mystery.”

ایک گہری آہ بھر کر، عورت نے اپنے دکھ بھری کہانی سنانا شروع کی۔ “عزت مآب سلطان،” اس نے شروع کیا، “میرے شوہر چند سال قبل انتقال کر گئے، مجھے سات بیٹیوں کے ساتھ چھوڑ گئے۔ میں امراء کے گھروں میں خانساماں کا کام کرتی ہوں، اور جو تھوڑا بہت کماتی ہوں، اس سے اپنا گھر چلاتی ہوں۔ میں نے کبھی شکایت نہیں کی، اپنی بیٹیوں کے ساتھ سادہ زندگی گزاری۔ چند سال پہلے، میری سب سے بڑی بیٹی بیمار پڑ گئی، ایک دائی نے بتایا کہ وہ امید سے ہے۔ لیکن وہ تو غیر شادی شدہ تھی! میں حیران، پریشان ہو گئی۔ میں نے اس سے پوچھ گچھ کی، حتیٰ کہ سخت الفاظ بھی استعمال کیے، تاکہ سچ معلوم ہو سکے، لیکن اس نے کسی بھی غلط کام سے سختی سے انکار کیا، یہ اصرار کرتے ہوئے کہ وہ کبھی اکیلی گلی کے نکڑ تک بھی نہیں گئی۔ اور میں، اس کی ماں، اپنے دل میں جانتی تھی کہ وہ ایسے کام کی اہل نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مجھے اس کی بے گناہی کا یقین ہو گیا۔ چند دن بعد، اس نے ایک خوبصورت بیٹے کو جنم دیا، لیکن باپ ایک راز ہی رہا۔”

“Time moved on,” she continued, her voice trembling. “Then, my second daughter also fell ill, and the midwife gave the same devastating news. The same happened with my third daughter. Respected Sultan, I endured it all. I bore this pain thrice, in silence, revealing nothing to anyone. I stayed confined within my home. But now, I have reached my breaking point. Believe me, Respected Sultan, I would never have come here seeking justice, but I am utterly helpless. My youngest daughter, barely fourteen, is also gravely ill. The midwife’s diagnosis was the same: she too is to become a mother. But Respected Sultan, the perpetrator of this vile act, who is ruining my daughters’ lives, remains at large. I am a mother; how long can I silently witness my daughters’ suffering? I bore the pain of the first, then the second, and then the third, swallowing the bitter pills of patience and entrusting the matter to Allah. But Respected Sultan, I cannot bear the plight of my youngest daughter, for I still have three more daughters, and if, God forbid, that man does the same to them, what will I do? I implore you to apprehend this man by all means and deliver him the harshest punishment for his heinous crimes against my innocent girls. I am in immense pain; I can no longer bear it.”

“وقت گزرتا گیا،” اس نے کانپتی ہوئی آواز میں جاری رکھا۔ “پھر میری دوسری بیٹی بھی بیمار پڑ گئی، اور دائی نے وہی تباہ کن خبر دی۔ تیسری بیٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ عزت مآب سلطان، میں نے یہ سب برداشت کیا۔ میں نے یہ تکلیف تین بار، خاموشی سے برداشت کی، کسی کو کچھ نہیں بتایا۔ میں اپنے گھر میں ہی بند رہی۔ لیکن اب، میں اپنی حد کو پہنچ چکی ہوں۔ یقین کریں، عزت مآب سلطان، میں کبھی یہاں انصاف مانگنے نہ آتی، لیکن میں مکمل طور پر بے بس ہوں۔ میری سب سے چھوٹی بیٹی، جو بمشکل چودہ سال کی ہے، بھی شدید بیمار ہے۔ دائی کی تشخیص وہی تھی: وہ بھی ماں بننے والی ہے۔ لیکن عزت مآب سلطان، اس گھناؤنے فعل کا مرتکب، جو میری بیٹیوں کی زندگیوں کو تباہ کر رہا ہے، ابھی تک آزاد ہے۔ میں ایک ماں ہوں؛ میں کب تک اپنی بیٹیوں کا دکھ خاموشی سے دیکھوں گی؟ میں نے پہلی بیٹی کا دکھ برداشت کیا، پھر دوسری کا، اور پھر تیسری کا، صبر کے کڑوے گھونٹ پی کر اور معاملہ اللہ کے سپرد کر کے۔ لیکن عزت مآب سلطان، میں اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کی حالت برداشت نہیں کر سکتی، کیونکہ میرے پاس ابھی بھی تین اور بیٹیاں ہیں، اور اگر، خدا نخواستہ، وہ شخص ان کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتا ہے، تو میں کیا کروں گی؟ میں آپ سے التجا کرتی ہوں کہ ہر حال میں اس شخص کو پکڑیں اور میری معصوم بیٹیوں کے خلاف اس کے گھناؤنے جرائم کے لیے اسے سخت ترین سزا دیں۔ میں شدید تکلیف میں ہوں؛ میں مزید برداشت نہیں کر سکتی۔”

Tears streamed down the woman’s face as she finished her plea. The Sultan’s brow furrowed in deep concern; he found it hard to believe such atrocities were occurring within his dominion. He looked at the weeping woman and spoke with a tone of solemnity. “Old woman,” he inquired, “why did you not inform us sooner? We fail to comprehend why people, in their misguided efforts to safeguard their honor, inadvertently compromise the dignity of their own daughters. Had you approached us at the outset, that wicked individual would undoubtedly have been apprehended, and your second, third, and fourth daughters would have been spared this dreadful ordeal.”

عورت کی التجا ختم ہوتے ہی اس کے چہرے پر آنسو بہنے لگے۔ سلطان کی پیشانی گہری فکرمندی سے بھر گئی؛ اسے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ اس کی سلطنت میں ایسے مظالم ہو رہے ہیں۔ اس نے روتی ہوئی عورت کی طرف دیکھا اور سنجیدگی کے ساتھ بولا۔ “اے ضعیف العمر عورت،” اس نے پوچھا، “تم نے ہمیں پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ لوگ اپنی عزت بچانے کی غلط کوششوں میں کیوں نادانستہ طور پر اپنی بیٹیوں کی عزت داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اگر تم نے شروع میں ہی ہم سے رابطہ کیا ہوتا، تو وہ بدکار شخص بلاشبہ پکڑا جاتا، اور تمہاری دوسری، تیسری اور چوتھی بیٹی کو اس خوفناک آزمائش سے بچا لیا جاتا۔”

The woman, with bowed head, conceded, “I admit my oversight. But now, enough is enough. Respected Sultan, I demand justice. I want that person imprisoned. I cannot forgive him; he has ruined my daughters’ lives. No one will marry my innocent daughters now. They never stepped outside the house, committed no indecency, never even went to the door without a veil, and now this has happened to them. I cannot even imagine what kind of trial this is for us.” Her voice was choked, and tears flowed freely from her eyes.

عورت نے جھکے سر کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کی، “میں اپنی غلطی تسلیم کرتی ہوں۔ لیکن اب بہت ہو گیا۔ عزت مآب سلطان، مجھے انصاف چاہیے۔ میں اس شخص کو قید میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں اسے معاف نہیں کر سکتی؛ اس نے میری بیٹیوں کی زندگیاں برباد کر دی ہیں۔ اب کوئی میری معصوم بیٹیوں سے شادی نہیں کرے گا۔ انہوں نے کبھی گھر سے باہر قدم نہیں رکھا، کوئی بے حیائی نہیں کی، کبھی دوپٹے کے بغیر دروازے تک بھی نہیں گئیں، اور اب ان کے ساتھ یہ ہو گیا ہے۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتی کہ یہ ہمارے ساتھ کیسی آزمائش ہے۔” اس کی آواز رندھی ہوئی تھی، اور اس کی آنکھوں سے آنسو بے دریغ بہہ رہے تھے۔

The Sultan rose from his seat, his gaze fixed on the woman. “Go home without worry,” he commanded, “you have no need to fret. We promise that your daughters’ lives will be restored to their former glory, and justice will be served. That man will be incarcerated, and we ourselves will find suitable husbands for your daughters.”

سلطان اپنی نشست سے اٹھا، اس کی نگاہ عورت پر مرکوز تھی۔ “بغیر کسی پریشانی کے گھر جاؤ،” اس نے حکم دیا، “تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہاری بیٹیوں کی زندگیاں اپنی سابقہ عظمت کو بحال کر دی جائیں گی، اور انصاف ہو گا۔ وہ شخص قید ہو گا، اور ہم خود تمہاری بیٹیوں کے لیے مناسب شوہر تلاش کریں گے۔”

Upon hearing this, the woman fell to her knees, her hands clasped in reverence before the Sultan. “Respected Sultan,” she tearfully exclaimed, “I shall never forget this kindness! You are a truly magnificent ruler!” Without a word, the Sultan exited the chamber. The woman, gathering her shawl and wiping her tears, then departed for her home.

یہ سنتے ہی، عورت گھٹنوں کے بل گر گئی، اس کے ہاتھ سلطان کے سامنے احترام سے جڑے ہوئے تھے۔ “عزت مآب سلطان،” اس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا، “میں اس کرم کو کبھی نہیں بھولوں گی! آپ واقعی ایک عظیم حکمران ہیں!” ایک لفظ کہے بغیر، سلطان کمرے سے نکل گیا۔ عورت نے، اپنی چادر سنبھال کر اور اپنے آنسو پونچھ کر، پھر اپنے گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

The Sultan returned to his court, diligently addressing the concerns of his people. Yet, his thoughts lingered on the woman’s plight. As the afternoon court concluded, he summoned his vizier to his private chambers. The vizier, understanding the unspoken command, followed. In the same chamber where the woman had earlier poured out her heart, the vizier now stood before the Sultan.

سلطان اپنے دربار میں واپس آیا، اور اپنی رعایا کے مسائل کو تندہی سے حل کرنے لگا۔ پھر بھی، اس کے خیالات اس عورت کی حالت زار پر اٹکے ہوئے تھے۔ دوپہر کا دربار ختم ہوتے ہی، اس نے اپنے وزیر کو اپنے نجی کمرے میں طلب کیا۔ وزیر، خاموش حکم کو سمجھتے ہوئے، پیچھے پیچھے آیا۔ اسی کمرے میں جہاں عورت نے پہلے اپنا دل کھولا تھا، وزیر اب سلطان کے سامنے کھڑا تھا۔

The Sultan’s distress was evident. “I am at a loss,” he confessed. “That woman, burdened by sorrow, has no husband, no son, and now her four daughters face this unspeakable injustice. I cannot fathom who could commit such an act within my kingdom, or how he could lose all fear of me, the king.”

سلطان کی پریشانی واضح تھی۔ “میں حیران ہوں،” اس نے اقرار کیا۔ “وہ عورت، غموں کی ماری، نہ اس کا شوہر ہے، نہ بیٹا، اور اب اس کی چار بیٹیاں اس ناقابل بیان ناانصافی کا سامنا کر رہی ہیں۔ میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ میری سلطنت میں ایسا کام کون کر سکتا ہے، یا اسے مجھ سے، بادشاہ سے، کس طرح کا کوئی خوف نہیں رہا۔”

The vizier, still unaware of the specifics, looked at the Sultan with a puzzled expression. “Respected Sultan,” he respectfully began, “if I may be so bold, what is this matter that so deeply troubles you?” The Sultan, then, recounted the entire heartbreaking story to his vizier. Hearing the details, the vizier’s face also clouded with anger. “We shall not spare that despicable individual!” he vowed. “But, Respected Sultan, given his cunning, apprehending him will be a formidable task. Nevertheless, we will spare no effort to capture him and bring him to justice before those innocent girls.”

وزیر، جو ابھی بھی تفصیلات سے لاعلم تھا، سلطان کی طرف حیران کن نظروں سے دیکھنے لگا۔ “عزت مآب سلطان،” اس نے باادب انداز میں آغاز کیا، “اگر میں گستاخی کی اجازت چاہوں تو، کیا معاملہ ہے جس نے آپ کو اتنا پریشان کر رکھا ہے؟” پھر سلطان نے اپنے وزیر کو پوری دل دہلا دینے والی کہانی سنائی۔ تفصیلات سن کر، وزیر کا چہرہ بھی غصے سے بھر گیا۔ “ہم اس گھناؤنے شخص کو نہیں چھوڑیں گے!” اس نے عہد کیا۔ “لیکن، عزت مآب سلطان، اس کی چالاکی کے پیش نظر، اسے پکڑنا ایک مشکل کام ہو گا۔ اس کے باوجود، ہم اسے پکڑنے اور ان معصوم بچیوں کے سامنے انصاف دلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔”

The Sultan listened intently to his vizier. After considering everything, he spoke, “I have a plan. If we execute it, this man can be caught very quickly. Given the speed with which he is committing these acts, he will undoubtedly approach the youngest girl again and attempt to harm her. But before that, we will implement a strategy that will ensnare him in our net.” The vizier looked at the Sultan, intrigued. “What plan do you have in mind that will solve this entire problem?” The Sultan then revealed his ingenious scheme to the vizier. Rising from his seat, he instructed, “Immediately arrange for a goat so that our mission can begin.”

سلطان نے اپنے وزیر کی بات کو غور سے سنا۔ ہر بات پر غور کرنے کے بعد، اس نے کہا، “میرے پاس ایک منصوبہ ہے۔ اگر ہم اسے عملی جامہ پہناتے ہیں، تو یہ شخص بہت جلد پکڑا جا سکتا ہے۔ جس تیزی سے وہ یہ کام کر رہا ہے، وہ بلاشبہ دوبارہ سب سے چھوٹی لڑکی کے پاس آئے گا اور اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ لیکن اس سے پہلے، ہم ایک ایسی حکمت عملی اپنائیں گے جو اسے ہمارے جال میں پھنسا دے گی۔” وزیر نے دلچسپی سے سلطان کی طرف دیکھا۔ “آپ کے ذہن میں کیا منصوبہ ہے جو اس پورے مسئلے کو حل کر دے گا؟” پھر سلطان نے اپنا ذہین منصوبہ وزیر پر ظاہر کیا۔ اپنی نشست سے اٹھتے ہوئے، اس نے ہدایت کی، “فوری طور پر ایک بکری کا انتظام کرو تاکہ ہمارا مشن شروع ہو سکے۔”

The vizier respectfully bowed and departed, quickly acquiring a purebred goat. He made his way to the woman’s house, the Sultan’s ingenious plan about to unfold. It was around 1 AM, and the vizier observed no one around. He gently knocked on the woman’s door, and she emerged, startled, her headscarf askew. Before her stood the Sultan’s vizier, holding a goat.

وزیر نے احترام سے سر جھکایا اور روانہ ہوا، جلدی سے ایک خالص نسل کی بکری حاصل کی۔ وہ عورت کے گھر کی طرف روانہ ہوا، سلطان کا ذہین منصوبہ کھلنے والا تھا۔ رات کے تقریباً 1 بجے تھے، اور وزیر نے آس پاس کسی کو نہیں دیکھا۔ اس نے آہستہ سے عورت کے دروازے پر دستک دی، اور وہ ہڑبڑا کر باہر نکلی، اس کا سر پر دوپٹہ بکھرا ہوا تھا۔ اس کے سامنے سلطان کا وزیر کھڑا تھا، جس کے ہاتھ میں ایک بکری تھی۔

“Is everything alright?” the woman inquired, bewildered, “You, at this hour, with a goat?” The vizier nodded slightly, leaning in to whisper his explanation. “Respected Sultan has devised a plan to capture that man,” he explained softly. “I need to tie this goat on your rooftop to ensure his capture.” The woman’s surprise deepened. “What kind of plan?” she questioned, “And how will this goat help us identify him, or understand why he is doing this?”

“کیا سب خیریت ہے؟” عورت نے حیران ہو کر پوچھا، “آپ اس وقت، اور ایک بکری کے ساتھ؟” وزیر نے ہلکا سا سر ہلایا، اور اپنی وضاحت سرگوشی میں کی۔ “عزت مآب سلطان نے اس شخص کو پکڑنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا ہے،” اس نے نرمی سے سمجھایا۔ “مجھے اس بکری کو آپ کی چھت پر باندھنا ہو گا تاکہ اسے پکڑا جا سکے۔” عورت کی حیرت مزید گہری ہو گئی۔ “کیسا منصوبہ؟” اس نے سوال کیا، “اور یہ بکری ہمیں اسے پہچاننے میں کیسے مدد کرے گی، یا یہ سمجھنے میں کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟”

The vizier, agitated, glanced around before urgently addressing the woman. “Please allow me inside,” he urged, “lest he, who may be watching your house, sees me.” The woman immediately opened the door, ushering the vizier inside. The house was small: two tiny rooms, a modest kitchen, and a small veranda. The vizier reassured her, “This is the Sultan’s plan. Rest assured, your culprit will be at your mercy. Just grant me permission to do my work and leave. We believe he will return to your house to assault your youngest daughter, and when he does, this goat will provide invaluable assistance.”

وزیر، پریشان ہو کر، جلدی سے عورت سے مخاطب ہونے سے پہلے ارد گرد دیکھا۔ “براہ کرم مجھے اندر آنے دیں،” اس نے اصرار کیا، “کہیں وہ شخص، جو آپ کے گھر پر نظر رکھ رہا ہو، مجھے دیکھ نہ لے۔” عورت نے فوراً دروازہ کھولا، اور وزیر کو اندر لے گئی۔ گھر چھوٹا تھا: دو چھوٹے کمرے، ایک معمولی کچن، اور ایک چھوٹا برآمدہ۔ وزیر نے اسے تسلی دی، “یہ سلطان کا منصوبہ ہے۔ یقین رکھیں، آپ کا مجرم آپ کے قدموں میں ہو گا۔ بس مجھے اپنا کام کرنے اور جانے کی اجازت دیں۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ آپ کی چھوٹی بیٹی پر حملہ کرنے کے لیے دوبارہ آپ کے گھر آئے گا، اور جب وہ ایسا کرے گا، تو یہ بکری انمول مدد فراہم کرے گی۔”

The woman remained bewildered, unable to comprehend the vizier’s words. The vizier cast a quick glance around her house before ascending the stairs. With great difficulty, he led the goat up the stairs to the roof, tied it to a shed, and then descended. The woman awaited him downstairs. The vizier looked towards the room from which children’s cries emanated, confirming the woman’s truthfulness. He returned to the palace and recounted the entire story to the Sultan, including the presence of the woman’s daughters and their children. The Sultan was saddened but knew his plan would surely apprehend the culprit.

عورت حیران و پریشان کھڑی رہی، وزیر کی کوئی بات اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ وزیر نے اس کے گھر پر ایک سرسری نظر ڈالی اور سیڑھیوں کی جانب بڑھا۔ اس نے بڑی مشکل سے بکری کو سیڑھیوں سے چھت پر چڑھایا اور ایک کوٹھڑی کے ساتھ باندھ کر نیچے آ گیا۔ وزیر نیچے آیا تو عورت انتظار میں نیچے ہی کھڑی تھی۔ ایک نظر وزیر نے اس کمرے کی جانب دیکھا جہاں سے بچوں کی آوازیں آ رہی تھیں، یعنی یہ عورت درست تھی اس نے کوئی جھوٹ نہیں بولا تھا۔ وزیر محل آ گیا اور سلطان کو ساری کہانی بتا دی کہ وہاں پر اس عورت کی بیٹیاں بھی موجود ہیں اور ان کے بچے بھی وہ لوگ خاموشی سے پال رہے ہیں۔ سلطان کو یہ سن کر دکھ ہوا لیکن انہوں نے جو حکمت عملی سوچی تھی اس سے وہ آدمی ہر حال میں پکڑا جانا تھا۔

That very night, the Sultan deployed two soldiers to monitor the house. He was determined to capture the culprit and imprison him by dawn. The Sultan’s mind raced, constantly devising strategies. He spent the entire night pacing on his palace rooftop, accompanied by his vizier. Meanwhile, the woman in her home was deeply distressed, with the goat tied on the roof. As night fell, the mother and daughters lay down to sleep, but the Sultan remained awake in the palace, and the two vigilant soldiers kept watch over the house.

جبکہ سلطان نے رات میں ہی دو سپاہیوں کو اس گھر پر نگرانی کے لیے رکھ دیا تھا۔ وہ ہر حال میں راتوں رات اس آدمی کو پکڑ کر سلاخوں کے پیچھے ڈالنا چاہتے تھے۔ سلطان کا دماغ گھوڑے کی رفتار کی مانند چل رہا تھا۔ وہ ساری رات جاگ کر گزارنے والے تھے۔ وہ اپنے محل کی چھت پر چہل قدمی کر رہے تھے ان کے ساتھ ہی ان کا وزیر بھی موجود تھا۔ جبکہ وہ عورت اپنے گھر میں کافی پریشان تھی اوپر چھت پر بکری بندھی ہوئی تھی۔ رات ہوتے ہی وہ ماں بیٹیاں بستر پر سونے کے لیے لیٹ چکی تھی لیکن محل میں موجود سلطان ابھی تک جاگ رہے تھے اور اس گھر پر نظر رکھے ہوئے وہ دونوں سپاہی بھی ہوشیار کھڑے ہوئے تھے۔

Around midnight, a shadow leaped onto the roof of the small house. The tied goat, startled, immediately stood up. The shadow glanced at the goat and then silently began to descend the stairs. However, the goat had been placed there for a specific purpose and would not let him pass unnoticed. As soon as he descended, the goat began to bleat loudly, its cries echoing in the pervasive silence. The startled women downstairs also sprang up. The sudden, loud bleating of the goat had alarmed everyone. Meanwhile, the two soldiers stationed nearby, who had been vigilant, immediately opened the house door upon hearing the goat’s cries and entered.

رات کا آدھا پہر ہوتے ہی اس چھوٹے سے گھر میں ایک سایہ اس چھت پر کودا تھا۔ جبکہ وہ بکری جو بندھی ہوئی تھی وہ اپنی جگہ سے بے ساختہ کھڑی ہو گئی تھی۔ اس سایہ نے ایک نظر اس بکری کو دیکھا اور خاموشی سے سیڑھی سے اترنے لگا لیکن وہ بکری ایک خاص مقصد کے لیے بھیجی گئی تھی اور اس کو ایسے تو جانے نہیں دے سکتی تھی وہ جیسے ہی سیڑھی سے اترا وہ بکری تیز تیز آواز نکالنا شروع ہو گئی جبکہ اس کی آواز چاروں جانب سناٹے میں گونج رہی تھی نیچے موجود عورتیں بھی ہڑبڑا کر اٹھیں اچانک سے اس بکری کا اتنی زور سے چیخنا ان سب کو پریشان کر گیا تھا جبکہ باہر موجود وہ دونوں سپاہی جو گھر کے بہت ہی قریب کھڑے ہوئے ہوشیار تھے اچانک اس بکری کی آواز سن کر گھر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے۔

The shadow, surprised to see everyone emerge at once, hastily tried to flee up the stairs. However, the Sultan’s soldiers quickly apprehended him. He struggled desperately to escape, but their grip was too strong. His face was covered with a black cloth, but he couldn’t move an inch. The woman stared at him with wide, shocked eyes, as if she recognized him but was unable to speak. One of the soldiers looked at her and declared loudly, “Old mother, close your door. We have caught our culprit. The court will convene tomorrow morning, and you and your daughters must attend. That wicked individual will be punished in front of you all.” With that, they handcuffed the man and led him away, leaving the woman standing frozen in place.

جبکہ کمرو ں کے اندر سے وہ لڑکیاں بھی باہر آ گئیں اور اس کی ماں بھی دوپٹہ درست کرتی ہوئی آئی۔ سامنے وہ سایہ جو سب کو ایک ساتھ باہر آتا دیکھ کر حیران تھا جلد بازی میں زینے کے اوپر بھاگنے لگا لیکن اس سے پہلے ہی سلطان کے سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا وہ خود کو ہر حال میں چھڑانا چاہتا تھا اس نے اپنے چہرے پر ایک کالا کپڑا باندھا ہوا تھا لیکن ان دونوں سپاہیوں کی پکڑ اتنی سخت تھی کہ وہ اپنی جگہ سے ایک انچ بھی ہل نہیں پایا تھا جبکہ وہ عورت پھٹی پھٹی نگاہوں سے اس آدمی کو دیکھ رہی تھی شاید وہ اس آدمی کو پہچان گئی تھی لیکن کچھ بھی بولنے کی سکت نہیں رکھتی تھی ایک سپاہی نے اس عورت کی جانب دیکھا اور بلند آواز میں بولا اے بوڑھی مائی اپنے گھر کا دروازہ بند کر لو ہمیں ہمارا مجرم مل گیا ہے کل صبح دربار لگے گا تو تم آ جانا اپنی بیٹیوں سمیت تمہارے سامنے ہی اس ناخون جڑ شخص کو سزا سنائی جائے گی وہ لوگ یہ بول کر اس آدمی کو ہتھکڑی لگا کر وہاں سے لے جا چکے تھے لیکن وہ عورت کسی بت کی مانند اپنی جگہ پر کھڑی کی کھڑی رہ گئی تھی۔

As dawn broke, the court was assembled. The Sultan sat on his throne, while the man, still masked, was brought in and made to kneel. The women had also arrived at the palace. At the woman’s request, the Sultan had ordered all other courtiers to leave, leaving only himself, his vizier, the women, the culprit, and the two soldiers standing guard. The Sultan looked at the masked man and thundered, “Who are you? How dare you play such a vile game with that woman? Why did you do this? Who are you?” The man remained silent. The Sultan then commanded his soldiers to remove the man’s mask, revealing his identity.

صبح طلوع آفتاب ہوتے ہی دربار لگا دیا گیا تھا۔ سلطان اپنی نشست پر विराजमान تھے جبکہ اس آدمی کو گھٹنوں کے بل بٹھایا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر ابھی تک نقاب تھا جبکہ وہ عورتیں بھی محل آ گئی تھیں۔ سلطان نے اس عورت کے کہنے کے مطابق تمام درباریوں کو محل سے باہر جانے کے لیے بول دیا تھا جبکہ دربار میں صرف سلطان ان کا وزیر اور وہ عورتیں اور وہ مجرم شخص موجود تھا اور رات والے دو سپاہی اس کے سر پر کھڑے ہوئے تھے۔ سلطان نے اس آدمی کی جانب دیکھا اور گرجتے ہوئے کہنے لگے کون ہو تم تمہاری اتنی جرات کہ تم اس عورت کے ساتھ اتنا بڑا گھنونا کھیل کھیلو تم نے ایسا کیوں کیا کون ہو تم جبکہ وہ آدمی بالکل چپ تھا اس نے کوئی جواب نہیں دیا تھا سلطان نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ فورا ہی اس آدمی کے چہرے سے نقاب ہٹایا جائے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ کون ہے۔

The man struggled to keep his face covered, but he was an ordinary individual, and the two soldiers were part of the Sultan’s elite force. As soon as his mask was removed, the mother and daughters simultaneously fell to their knees, their mouths agape. Before they could speak, the old woman, trembling with fury, cried out, “Are you not ashamed to do all this with your nieces? You are their uncle! How could you do this? You have ruined my daughters’ lives! Who does this to the daughters of their own family?”

سلطان کا حکم فوراً ہی بجا لایا گیا تھا اس آدمی نے اپنا نقاب چھپانے کی جدوجہد کی تھی لیکن وہ ایک عام انسان تھا جبکہ وہ دونوں آدمی سلطان کی فوج کا حصہ تھے۔ جیسے ہی اس آدمی کا نقاب ہٹا تھا ویسے ہی وہ ماں بیٹیاں گھٹنوں کے بل ایک ساتھ زمین بوس ہو گئی تھیں ان سب کے منہ کھلے کے کھلے رہ گئے تھے۔ وہ کچھ بولتی اس سے پہلے ہی وہ بوڑھی عورت غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہنے لگی تمہیں شرم نہ آئی اپنی بھتیجیوں کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے تم ان کے چچا ہو تم یہ سب کیسے کر سکتے ہو تم نے میری بیٹیوں کی زندگی تباہ کر دی اپنے خاندان کی بیٹیوں کے ساتھ ایسا کون کرتا ہے؟

Meanwhile, lines of concern also appeared on the Sultan’s forehead. He now understood why their reaction had been so profound. The man kneeling before them was indeed their uncle, the perpetrator of these heinous acts. He struggled desperately in the soldiers’ grip, yearning to flee the palace, but it was futile. The Sultan looked at the man and sternly ordered, “Stay where you are! You cannot escape from here. It is in your best interest to silently confess the entire truth about why you did all this to these innocent girls.”

جبکہ سلطان کے ماتھے پر بھی شکنوں کے جال بچھ گئے تھے اس سمجھ چکے تھے کہ ان لوگوں کا رد عمل ایسا کیوں آیا ہے کیونکہ یہ انسان جو گھٹنوں کے بل بیٹھا ہوا تھا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ان کا چچا تھا جو یہ کام کر رہا تھا۔ وہ آدمی سلطان کے سپاہیوں کی گرفت میں جھٹ پٹ رہا تھا وہ کسی بھی طور پر محل سے بھاگ جانا چاہتا تھا لیکن یہ ممکن نہیں تھا۔ سلطان نے اس آدمی کی جانب دیکھا اور غصے سے بولے اپنی جگہ پر ٹھہر جاؤ تم یہاں سے کسی طور پر بھی بھاگ نہیں سکتے تمہاری بھلائی اسی کام میں ہے کہ تم خاموشی سے سارا سچ بتاؤ کہ تم نے ان معصوم بچیوں کے ساتھ یہ سب کچھ کیوں کیا۔

The man looked at the mother and daughters, then at the Sultan, and said, “This is our family matter, Respected Sultan. We deeply respect you, but we humbly request that you keep our family affairs private. My sister-in-law is merely overreacting; nothing as serious as she claims has happened.” Before the Sultan could respond, the woman’s eldest daughter, trembling with fury, interjected, “This may be nothing to you, but it concerns our very lives! You have done such wrong to all four of us sisters, and there is no remorse, no regret in your eyes! What kind of person are you? Did it not cross your mind that we are your brother’s daughters?”

اس آدمی نے ایک نظر ان ماں بیٹیوں پر ڈالی اور دوسری نظر سلطان پر ڈال کر کہنے لگا یہ ہمارے گھر کا معاملہ ہے سلطان معظم ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں لیکن آپ سے گزارش ہے کہ ہمارے گھر کے معاملے کو گھر تک ہی محدود رہنے دو میری بھابھی تو پاگل ہے جو یہاں پر آ کر واویلا مچا رہی ہے ایسا کچھ نہیں ہوا جتنا یہ شور کر رہی ہے۔ جبکہ سلطان کچھ کہتے اس سے پہلے اس عورت کی بڑی بیٹی غصے سے چیخی تمہارے لیے بچا یہ کچھ نہیں ہوگا لیکن یہ ہماری زندگی کا سوال ہے تم نے ہم چاروں بہنوں کے ساتھ اتنا غلط کام کیا اور تمہاری آنکھوں میں ذرا ندامت نہیں ہے ذرا پشیمانی نہیں ہے تم کیسے شخص ہو تمہیں یہ خیال نہیں آیا کہ ہم تمہارے بھائی کی بیٹیاں ہیں۔

The man persisted in his defiance. The Sultan gestured to a soldier, who immediately drew his sword and placed it at the man’s throat. The man fell silent, seemingly holding his breath. The Sultan looked at him and commanded, “Speak! Why did you do all this? Otherwise, it will only take our word for this soldier to sever your head. It is in your best interest to quietly reveal the truth.”

وہ آدمی ابھی بھی ڈٹائی دکھا رہا تھا۔ سلطان نے اپنے ایک سپاہی کو اشارہ کیا تو اس نے فوراً ہی اپنی میان سے تلوار نکال کے اس آدمی کے گلے پر رکھ دی۔ وہ آدمی بالکل چپ ہو گیا تھا ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے اس نے اپنی سانس تک روک لی ہو۔ سلطان اس آدمی کی جانب دیکھتے ہوئے کہنے لگے بولو یہ سب تم نے کیوں کیا نہیں تو ہمارے حکم دینے کی دیر ہے یہ سپاہی تمہاری گردن پر تلوار پھیر دے گا تمہاری عافیت اسی میں ہے کہ تم خاموشی سے حقیقت سے پردہ اٹھا دو۔

The man looked at the Sultan and began to confess. “Respected Sultan, I was my brother’s younger brother. Before his marriage, he cared for me deeply. But once he married and had daughters, he completely neglected me. I felt this neglect acutely. As my nieces grew from innocent children into young women, my faith faltered. I am married, yet I found myself drawn to my nieces. I even urged my sister-in-law to marry them off, but she paid no heed. After that, I lost control of myself. In the dead of night, I would jump from the roof into their house. I used a herb whose scent causes unconsciousness, making them fall into a deep sleep. Then, I would fulfill my dark desires and leave. Initially, it was merely a thrill, but when I discovered my eldest niece was pregnant, I stopped. Yet, I was too weak to resist my urges and continued. Finally, when I did this to my youngest niece, I felt a perverse pleasure, but I never imagined I would be caught after that.”

اس آدمی نے سلطان کی جانب دیکھا اور کہنے لگا سلطان معظم میں اپنے بھائی کا چھوٹا بھائی تھا شادی سے پہلے میرا بھائی میرا بہت خیال رکھتا تھا لیکن جیسے ہی اس کی شادی اور اس کی بیٹیاں ہوئیں اس نے مجھ پر سے بالکل ہی دھیان دینا چھوڑ دیا۔ میں ان سب چیزوں کو بہت زیادہ محسوس کرتا تھا لیکن جیسے جیسے میری بھتیجیوں کی عمر بڑھتی گئی یہ لوگ ایک چھوٹی معصوم بچیوں سے نوعمر کلی بنتی گئیں اور میرا ایمان بھٹک گیا۔ میں شادی شدہ ہوں لیکن اس کے باوجود بھی میں اپنی بھتیجیوں کی جانب راغب ہوتا گیا۔ میں نے اپنی بھابھی کو کہا بھی کہ ان کی شادیاں کر دو لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے میری ایک نہیں سنی اور اس کے بعد میں اپنے نفس پر قابو نہیں رکھ پایا اور رات کے پہر جب یہ لوگ سو جاتے تھے تو میں چھت سے کود کر ان کے گھر میں داخل ہوتا تھا اور ایک جڑی بوٹی جس کی خوشبو سے انسان بے ساختہ بے ہوش ہو جاتا ہے ان لوگوں کو سنگھا دیتا جس کو یہ لوگ سونگھتے ہی بے ہوش ہو جاتی تھیں اور اس کے بعد میں اپنا مقصد پورا کر کے وہاں سے لوٹ جاتا تھا شروع شروع میں تو یہ سب میرے لیے ایک مزا تھا لیکن جیسے ہی مجھے معلوم ہوا کہ میری بڑی بھتیجی ماں بننے والی ہے تو میں نے یہ کام کرنا چھوڑ دیا لیکن نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں یہ کرتا چلا گیا اور آخر میں جب اپنی چھوٹی بھتیجی کے ساتھ یہ کیا تو مجھے ایک الگ ہی سرور ملا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ آخری بھتیجی کے ساتھ یہ کرنے کے بعد میں پکڑا جاؤں گا۔

The man finished his confession, his head bowed. Upon hearing the entire grim account, the Sultan immediately signaled his soldier. Without a moment’s hesitation, the soldier brought his sword down upon the man’s neck, severing his head instantly. The mother and daughters, overwhelmed by the shocking truth, burst into tears. A few days later, the Sultan arranged for the girls to be married into respected families.

وہ آدمی سر جھکا کر سچ بول گیا تھا جبکہ سلطان نے تمام روداد سننے کے بعد فورا ہی اپنے اس سپاہی کو اشارے سے حکم دیا تھا اور اس نے بنا اس آدمی کو سمجھنے کا موقع دیے بغیر وہ تلوار اس کے گلے پر پھیر دی اسی وقت اس آدمی کا سر دھڑ سے جدا ہو چکا تھا جبکہ وہ ماں بیٹیاں یہ سچائی سن کر آبدیدہ ہو گئی کچھ روز بعد ہی سلطان نے ان لڑکیوں کے رشتے لگوا دیے تھے اور اچھے گھرانوں میں ان کی شادیاں کروا دی تھیں۔

This incident proves that if a person possesses wisdom and devises a clever plan, they can easily resolve their problems without facing unnecessary complications.

اس واقعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اگر انسان کے پاس حکمت ہو اور وہ ایک اچھی تدبیر سوچے تو بغیر کسی بھی الجھن میں پڑے وہ اپنے مسئلے کا حل بہت آسانی سے نکال سکتا ہے۔

Leave a Comment