اشفاق صاحب، ریٹائرمنٹ کے بعد، گرمی سے بچنے کے لیے اپنے کمرے میں ایک ایئر کنڈیشنر (اے سی) لگوانا چاہتے تھے، کیونکہ ان کے بیٹے پہلے ہی اپنے کمروں میں اے سی لگوا چکے تھے اور ان کا بل اشفاق صاحب کی پنشن سے ادا ہوتا تھا۔ جب بجلی کا بل 60 ہزار روپے آیا تو بیٹوں نے غصے میں آ کر اشفاق صاحب کا نیا اے سی اتار کر بیچ دیا اور انہیں گھر کی چھت پر منتقل کر دیا۔ شدید گرمی اور اس ناانصافی کی وجہ سے اشفاق صاحب اور ان کی اہلیہ بیمار پڑ گئے اور بالآخر اسی رات اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ اگلے دن جب بیٹے کام پر جانے کے لیے گھر سے نکلے تو ایک غیر متوقع صورتحال نے انہیں حیران کر دیا۔
بڑھاپے کی مشکلات اور بیٹوں کی بے اعتنائی
گرمی کی تپتی دوپہر میں نماز کے بعد جب اشفاق صاحب گھر لوٹے تو پسینے سے شرابور تھے۔ اہلیہ بھی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھیں۔ اشفاق صاحب کی سانس پھول رہی تھی اور انہیں ٹھنڈے پانی کی طلب ہوئی۔ اہلیہ نے فوراً لیموں پانی بنا کر دیا جس سے انہیں کچھ افاقہ ہوا۔ وہ اپنی بڑھتی عمر اور گرمی کی ناقابل برداشت شدت پر پریشان تھے، خاص طور پر بڑھتے اخراجات کے پیش نظر۔ اہلیہ نے تجویز دی کہ وہ سیکنڈ ہینڈ اے سی لگوا لیں یا قسطوں پر کوئی ایسا اے سی لے لیں جس سے بجلی کا بل کم آئے۔ اشفاق صاحب نے بتایا کہ ان کی ایک کمیٹی اس مہینے کھلنے والی ہے جس سے 1 لاکھ 20 ہزار روپے ملیں گے اور اس سے ایک اے سی آسانی سے آ جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ویسے بھی بجلی کا بل ان کی پنشن سے ہی ادا ہوتا ہے، جہاں دو کمروں کا بل ادا ہو رہا ہے وہاں تیسرے کا بھی ہو جائے گا۔
بہوؤں کی سرد مہری اور گھر کا ماحول
گھر بڑا تھا، بیٹوں کے کمرے بھی وسیع تھے اور ان میں دو، دو ٹن کے اے سی دن رات چلتے رہتے تھے، حالانکہ ہر بیٹے کا ایک ہی بچہ تھا۔ شادی کے فوراً بعد ہی بہوؤں نے ساس سسر کی ذمہ داری نہیں لی اور نہ ہی ان سے بنا کر رکھتی تھیں۔ وہ اپنا ناشتہ خود ہی بناتی تھیں۔ اشفاق صاحب کی اہلیہ نے کبھی ساس بننے کی کوشش نہیں کی تھی، اس لیے وہ اپنا اور اپنے شوہر کا کھانا خود بناتی تھیں۔ گھر کا خرچہ اکٹھا ہوتا تھا، بجلی کا بل اشفاق صاحب کی پنشن سے جاتا تھا اور باقی اخراجات بیٹے پورے کرتے تھے۔ اشفاق صاحب کو ہمیشہ یہ گلہ رہا کہ انہوں نے بیٹوں کی پرورش میں تمام عمر قربانیاں دی ہیں، لیکن شادی کے بعد بیٹوں نے اپنی بیویوں کا ساتھ دیا۔
ماں کی غیر موجودگی اور باپ کی اذیت
ایک دن جب اشفاق صاحب کی اہلیہ اپنی بہن کے انتقال پر گاؤں گئیں تو گھر کے حالات بدل گئے۔ اشفاق صاحب کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے وہ ساتھ نہیں جا پائے۔ انہیں معلوم تھا کہ ان کی اہلیہ 15 دن سے پہلے واپس نہیں آ سکیں گی۔ اس دوران کھانے پینے کی ذمہ داری دونوں بہوؤں پر آ گئی، لیکن ان کے چہروں پر ناپسندیدگی نمایاں تھی۔ اشفاق صاحب کو شوگر تھی اور انہیں صبح 9 بجے ناشتہ چاہیے ہوتا تھا، لیکن بہوئیں 12 بجے تک اے سی والے کمروں سے باہر نہیں نکلتی تھیں۔ اشفاق صاحب نے بیٹوں سے اپنی ضرورت کا ذکر کیا، لیکن ان کے ماتھے پر بل پڑ گئے۔
اگلی صبح 9 بجے دونوں بہوئیں کچن میں موجود تو تھیں، لیکن برتن پٹکنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ بڑی بہو چھوٹی سے کہہ رہی تھی کہ بڑھیا انہیں مصیبت میں ڈال کر گاؤں چلی گئی ہے، اور چھوٹی بہو بڑھاپے کے نخروں کی شکایت کر رہی تھی۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ ساری رات بچے سونے نہیں دیتے اور صبح اٹھ کر اس نواب کے لیے ناشتہ بنانا پڑتا ہے۔ یہ باتیں سن کر اشفاق صاحب کا دل دکھ گیا۔ ان کی اہلیہ ہمیشہ ان کے لیے تازہ ناشتہ تیار رکھتی تھیں، کبھی سابودانہ تو کبھی دلیا، لیکن بہوؤں نے آج بیکری کے بسکٹ اور کڑوی چائے لا کر دی۔ اشفاق صاحب کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ چائے نہیں پی سکے اور بہوئیں دوبارہ اپنے کمروں میں چلی گئیں۔
کچن کی حالت بھی خراب تھی، برتن بکھرے پڑے تھے اور بدبو آ رہی تھی۔ اشفاق صاحب کی اہلیہ گھر کو ہمیشہ صاف رکھتی تھیں۔ انہوں نے فریج سے بریڈ اور مکھن نکال کر کھایا اور پانی پیا۔ انہیں اپنی اہلیہ کی شدت سے یاد آ رہی تھی۔ دوپہر کا کھانا بھی باسی تھا، رات کی سوکھی روٹی اور خراب سالن دیکھ کر ان کا جی خراب ہو گیا۔ انہوں نے سالن چھوڑ دیا اور بہو سے صرف دودھ مانگا، لیکن اس نے بدتمیزی سے جواب دیا اور کہا کہ ان کے نخرے بہت ہیں۔ اشفاق صاحب غصے میں آ گئے اور بہو سے اس کے باپ کے گھر کے کھانے کے بارے میں پوچھتے ہوئے کہا کہ یہ سالن بدبودار اور رات کی روٹی ہے، جبکہ ان کی اہلیہ نے انہیں بہوؤں سے نہ الجھنے کو کہا تھا۔ بہو مزید منہ بسور کر اپنے کمرے میں چلی گئی اور اشفاق صاحب کا پوتا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ پوتا دادا کے لیے دودھ لے آیا اور اشفاق صاحب کو تسلی دی۔
بیٹوں کا غیر اخلاقی اقدام اور والدین کی بے بسی
رات کو جب بیٹے گھر آئے اور کھانے پر بیٹھے تو شوربے میں تیرتے پیاز دیکھ کر اشفاق صاحب بھڑک اٹھے۔ انہوں نے بیٹوں کو اپنی ماں کے کھانا پکانے کے سلیقے اور ان کی بیویوں کی نالائقی پر طعنے دیے۔ فیصل نے کہا کہ “اتنا بھی برا نہیں بنا” اور اپنی پلیٹ میں سالن ڈالا، یہ کہتے ہوئے کہ آج کل کی لڑکیاں پڑھائی کر لیں یا گھر کے کام، دونوں نہیں کر سکتیں۔ اشفاق صاحب نے کہا کہ ان کی ان پڑھ ماں زیادہ اچھی تھی جس نے کبھی اپنے سسرال کے سامنے اف نہیں کی اور ہمیشہ اچھا کھانا کھلایا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ کیسے بیٹے تھوڑے سے نمک مرچ کے فرق پر ناراض ہو جاتے تھے، اور اب ایسا کھانا آرام سے کھا رہے ہیں۔ وہ غصے سے اٹھے اور فیصل سے دہی لانے کو کہا اور کہا کہ صبح کے ناشتے کے لیے ڈبل روٹی اور سادہ دودھ انہیں خود چاہیے، بہوؤں کو ناشتہ بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
24 گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ اشفاق صاحب نے مجبوراً اپنی اہلیہ کو فون کیا اور انہیں اپنی حالت بتائی۔ انہوں نے کہا کہ بہوؤں نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی ہے اور وہ ایک دن بھی مزید برداشت نہیں کر سکتے۔ ان کی اہلیہ نے جلدی واپس آنے کا وعدہ کیا۔ تین دن اشفاق صاحب نے دہی اور ڈبل روٹی کھا کر گزارے اور تیسرے دن اہلیہ واپس آ گئیں۔ وہ بھی گرمی سے بے حال تھیں اور ان کے جسم پر دانے نکل آئے تھے۔ اشفاق صاحب کے جسم پر بھی دانے تھے جو تکلیف دہ تھے۔
چونکہ بیٹے اے سی لگوانے سے انکار کر چکے تھے، اشفاق صاحب نے کمیٹی کے پیسوں سے ایک ٹن کا اے سی لے کر اپنے کمرے میں لگوا لیا۔ یہ دیکھ کر بیٹوں اور بہوؤں کو حیرت ہوئی۔ رات کو بیٹے پوچھنے آئے تو اشفاق صاحب نے بتایا کہ ان کی کمیٹی نکلی تھی اور ان کی اہلیہ کی تکلیف کی وجہ سے انہوں نے یہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے بیٹوں کو اپنی قربانیاں یاد دلائیں اور کہا کہ شاید وہ اس معاملے میں بدنصیب ہیں۔ اشفاق صاحب کی اہلیہ نے بیٹوں کو ان کے والد کے ہاتھوں پر نکلے دانے دکھائے تاکہ انہیں اپنی غلطی کا احساس ہو۔ بیٹے شرمندہ ہو کر کمرے سے باہر نکل گئے۔
حسد، بے حرمتی اور عبرتناک انجام
اشفاق صاحب اور ان کی اہلیہ احتیاط سے اے سی چلاتے تھے تاکہ بل زیادہ نہ آئے، لیکن بہوئیں 24 گھنٹے اے سی چلاتی تھیں اور بمشکل ایک گھنٹے کے لیے کھانا بنانے باہر نکلتی تھیں۔ ایک مہینہ گزرا تو بجلی کا بل 60 ہزار روپے آیا۔ فیصل نے بل اشفاق صاحب کے منہ پر مارا اور کہا کہ اسے کون بھرے گا۔ اشفاق صاحب نے کہا کہ پہلے بھی ان کی پنشن سے بل ادا ہوتا تھا اور 10 ہزار بیٹے ڈال دیں۔ اس پر بیٹوں نے صاف انکار کر دیا اور اپنے بڑھتے ہوئے اخراجات کا حوالہ دیا۔ اشفاق صاحب نے کہا کہ وہ کئی سالوں سے ان کے اے سی کا بل بھر رہے ہیں اور اب جب ان کی باری آئی تو وہ اتنا بھی نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اب اپنا خرچہ خود اٹھائیں گے اور بجلی کا بل بھی اپنا اپنا بھریں گے اور باقی راشن وہ اپنی پنشن سے پورا کر لیں گے۔
یہ سن کر بیٹے بھڑک اٹھے اور کہنے لگے کہ پھر وہ اپنا انتظام الگ کریں اور گھر سے جانے کی تیاری کریں۔ اشفاق صاحب نے گھر چھوڑنے سے انکار کیا تو بیٹے لڑنے کے لیے آگے بڑھے۔ اہلیہ نے بیٹوں کو باپ پر ہاتھ اٹھانے سے روکا تو انہوں نے ماں کو بھی دھکا دیا اور باپ کا ہاتھ زور سے پکڑ لیا، یہ کہتے ہوئے کہ اب یہ ان کا گھر ہے اور قانونی طور پر 50 سال کی عمر کے بعد باپ کی جائیداد پر بیٹوں کا حق ہو جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اتنا بل نہیں بھر سکتے اور کمیٹی کے پیسے بھی انہیں ملنے چاہیے تھے۔ فیصل نے نعمان کو اے سی اتار کر بیچنے کو کہا اور والدین کو چھت والے کمرے میں ڈالنے کی تجویز دی۔
مکافات عمل اور والدین کی دعائیں
نعمان نے اتنی زور سے اشفاق صاحب کا ہاتھ پکڑا تھا کہ انہیں لگا ہڈی ٹوٹ جائے گی۔ وہ درد سے کراہنے لگے اور اہلیہ رونے لگیں۔ دونوں بیٹوں نے ان کا سامان اٹھایا اور چھت پر واقع کمرے میں ڈال دیا جہاں نہ پنکھا تھا نہ لائٹ۔ انہوں نے والدین کو وہیں جا کر سونے کو کہا اور اے سی اتار کر بیچ دیا۔ دونوں میاں بیوی بہت روئے، انہوں نے بچوں کی خاطر اپنی ساری زندگی قربان کر دی تھی، اور اب جب آرام کا وقت آیا تھا تو بچوں نے ان کی زندگی اجیرن کر دی تھی۔ بدتمیز بیٹوں نے ان کا دل توڑ دیا تھا۔ چھت پر گرمی اور بھی زیادہ تھی، اور جب پسینہ زخموں پر لگتا تو انہیں جلن ہوتی۔
ایک رات دونوں میاں بیوی گھر سے نکل گئے۔ بیٹوں کو ان کے جانے پر کوئی افسوس نہیں ہوا بلکہ وہ خوش تھے کہ اب پورے گھر پر ان کا قبضہ ہو گا۔ لیکن اگلے دن جب دونوں بیٹے آفس پہنچے تو انہیں نوکری سے نکال دیا گیا۔ نعمان کو فائل گم کرنے پر نکالا گیا جس سے کمپنی کو لاکھوں کا نقصان ہوا، اور فیصل کو پیسوں کی ہیرا پھیری اور چوری کرنے پر نکالا گیا۔ وہ اپنی بیویوں اور بچوں کے بڑھتے اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسا کر رہا تھا۔ جب بیٹوں نے والدین کا دل دکھایا تھا، تو یہ وقت تو آنا ہی تھا۔ دونوں روتے دھوتے گھر واپس آئے۔ بیویوں کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ بھی پریشان ہوئیں۔ بیٹوں نے اپنی بیویوں کو برا بھلا کہا کہ ان کی وجہ سے انہوں نے اپنے والدین کو گھر چھوڑنے پر مجبور کیا اور اب انہیں فاقے کاٹنے پڑیں گے۔
اشفاق صاحب اور ان کی اہلیہ گاؤں میں اپنی بہن کے بیٹے رحیم کے پاس پہنچ چکے تھے۔ رحیم نے انہیں بخوشی اپنے گھر میں جگہ دی، ان کی بہت خدمت کی اور انہیں اے سی والے کمرے میں سلایا۔ اشفاق صاحب نے دوبارہ شہر کا رخ نہیں کیا، لیکن ان کے دل سے اپنے بچوں کے لیے صرف بددعائیں ہی نکلتی تھیں۔ دونوں بیٹوں کے حالات اس قدر خراب ہو گئے تھے کہ وہ اپنا گھر بیچ کر کھا چکے تھے اور اپنی اپنی بیویوں کے میکے میں رہنے لگے تھے، جہاں انہیں ہمیشہ طعنے سننے کو ملتے۔ ماں باپ کی نافرمانی کا یہی انجام ہوتا ہے۔