میرا نام سلطان احمد ہے۔ یہ کہانی اس وقت شروع ہوئی جب میں 17 سال کا تھا اور اپنے باپ کے انتقال کے بعد گھر کی ذمہ داریاں میرے کاندھوں پر آ پڑی تھیں۔ میں نے پھول بیچنا شروع کر دیے تاکہ اپنی بیمار والدہ اور جوان بہن کا پیٹ پال سکوں۔ ایک دن میں پھول بیچ رہا تھا کہ ایک چاندی جیسی چمکتی گاڑی میرے پاس آ کر رکی۔ اس میں سے ایک امیر خاتون، جنہیں میں بعد میں مالکن کہنے لگا، نے مجھے اپنے گھر میں ملازمت کی پیشکش کی۔ غربت کا مارا میں بھلا کیسے انکار کرتا، میں فوراً ان کے ساتھ ان کے عالی شان بنگلے چلا گیا۔
وہاں کا کام بہت عجیب تھا۔ انہوں نے مجھے خوبصورت لباس پہنائے اور اپنے مہمانوں کے سامنے ایسے پیش کیا جیسے میں کوئی امیر زادہ ہوں۔ مجھے بس خاموشی سے ان کے ساتھ بیٹھنا ہوتا تھا اور اس کام کے وہ مجھے ہزاروں روپے دیتی تھیں۔ میں حیران تھا، لیکن پیسوں کی ضرورت نے مجھے خاموش رکھا۔ ان پیسوں سے میں اپنی والدہ کا علاج کروانے لگا، جو جگر کے کینسر میں مبتلا تھیں، اور اپنی بہن کے جہیز کے لیے بھی رقم جوڑنے لگا۔ میری ماں اکثر پوچھتیں کہ اتنے پیسے کہاں سے لاتا ہوں، لیکن میرے پاس ان کے سوالوں کا کوئی جواب نہیں ہوتا تھا۔
میری مالکن بہت مہربان تھیں۔ جب میں نے اپنی بہن کی شادی کا بتایا تو انہوں نے نہ صرف مجھے چھٹی دی بلکہ خود بھی شادی میں شریک ہوئیں اور میری بہن کو تحفے میں بہت سارے پیسے دیے، یہ کہہ کر کہ یہ میری طرف سے ہیں۔ انہوں نے میری والدہ کے علاج کے لیے بھی اپنا ہسپتال میں داخلہ کروا دیا۔ میں ان کے احسانوں تلے دبتا جا رہا تھا۔
افسوس، علاج کے باوجود میری والدہ اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ان کی وفات کے بعد مالکن مجھے اپنے ساتھ اپنے گھر لے آئیں۔ میں اب وہیں رہنے لگا تھا۔
ایک رات میں سو رہا تھا کہ اچانک چیخ و پکار کی آواز سے میری آنکھ کھلی۔ میں بھاگ کر باہر نکلا تو دیکھا کہ کچھ لوگ میری مالکن کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ “تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے۔” میں نے انہیں بچانے کی کوشش کی تو ان لوگوں نے مجھے بھی دھمکی دی۔
اس واقعے کے بعد، میری مالکن کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ ایک دن انہوں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنی زندگی کی وہ داستان سنائی جس نے میرے پیروں تلے سے زمین نکال دی۔
انہوں نے بتایا کہ “رمیش” (یہ نام انہوں-نے مجھے دیا تھا) “میں ایک بہت مشہور گلوکارہ تھی۔ میں نے اپنے گھر والوں کی مرضی کے خلاف جا کر ایک شخص سے شادی کی، جس سے میں بہت محبت کرتی تھی۔ شادی کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک مجرم ہے۔ ہمارا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ میرے شوہر نے، جو جوئے اور جرائم میں ڈوبا ہوا تھا، ہمارے بیٹے کو پیسوں کے لیے بیچ دیا۔ میں نے اسے بہت ڈھونڈا مگر وہ نہیں ملا۔ میں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا اور اپنی باقی زندگی اپنے بیٹے کی تلاش میں گزار دی۔”
یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہا، “میں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تو پہچان گئی تھی۔ تم بالکل اپنے باپ کی طرح دکھتے ہو۔ میں نے تمہیں ملازمت کا جھانسا دے کر اپنے پاس رکھا تاکہ میں اپنی ममता کی پیاس بجھا سکوں اور تمہاری مدد کر سکوں۔ میں تمہیں بتانا چاہتی تھی، مگر ہمت نہ کر سکی۔”
یہ سن کر میں سکتے میں آ گیا۔ وہ عورت جسے میں اپنی مالکن سمجھتا تھا، وہ درحقیقت میری سگی ماں تھی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری ایام گن رہی تھیں، ان کا دل صرف 15 فیصد کام کر رہا تھا۔ انہوں نے مجھ سے معافی مانگی کہ وہ مجھے ماں کا پیار نہ دے سکیں۔ کچھ ہی دن بعد، وہ اس دنیا کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔
میری سگی ماں مر چکی تھی۔ انہوں نے اپنی تمام دولت اور جائیداد میرے نام کر دی تھی۔ میں نے ان کی وصیت کے مطابق، ان کے پیسوں سے دل کے مریضوں کے لیے ایک بڑا ہسپتال بنوایا تاکہ کوئی اور ماں اپنے بچوں سے اس طرح جدا نہ ہو۔ زندگی نے مجھے ایک عجیب دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا، لیکن اپنی ماں کی قربانیوں نے مجھے ایک نیا مقصد دے دیا تھا۔