6 جون کی رات تھی، میں ملتان سے فرار ہو کر لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ رات کے ایک بج چکے تھے اور میں سیدھا داتا دربار میں داخل ہوا۔ رات وہیں گزاری اور لنگر کے چاول کھا کر پیٹ بھرا۔ صبح جب دربار سے باہر نکلنے لگا تو ہکا بکا رہ گیا، میری جیب کٹ چکی تھی! میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی۔
دوستوں کی بے رخی اور ایک عجیب پیشکش
پیسوں کے بغیر، میں نے اپنی گھڑی فروخت کی اور قریبی پی سی او سے اپنے “اچھے” دوستوں کو فون کرنا شروع کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس دوست کو بھی میں نے کال کی، اس نے میری آواز سنتے ہی فون کاٹ دیا یا بند کر دیا۔ اس وقت مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں، لاہور میں میرا کوئی نہیں تھا۔
اسی پریشانی کے عالم میں ایک 45 سالہ خاتون نے مجھے دیکھا۔ وہ اپنی گاڑی میرے قریب لائی اور ایک عجیب پیشکش کی۔ اس نے بتایا کہ اس کا شوہر دو ماہ کے لیے ملک سے باہر گیا ہے اور اگر میں اس کی بات مانوں تو وہ مجھے دو ماہ کے 1 لاکھ روپے دے گی۔ مجھے اس وقت یہ پیشکش بہت عجیب لگی، لیکن مجبوری نے مجھے اس کی گاڑی میں بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔
قتل کا جھوٹا الزام اور فرار
دراصل، میں لاہور اس لیے بھاگا تھا کیونکہ مجھ پر ایک جھوٹا قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا، لیکن ایک مزدور کو زخمی کر کے بھاگنے والے شخص کا الزام مجھ پر لگ گیا۔ پولیس میرے پیچھے پڑ گئی، اور میں بس میں چھپ کر لاہور پہنچا۔
گاڑی میں بیٹھے ہوئے، اس خاتون نے مجھے بتایا کہ وہ مجھ سے کیا چاہتی ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا شوہر باہر رہتا ہے اور اس کی اپنی “خواہشات” ہیں جو پوری نہیں ہوتیں۔ اس نے مجھے جنسی تسکین فراہم کرنے کے بدلے ماہانہ 50 ہزار روپے کی پیشکش کی۔ یہ سن کر مجھے پسینہ آ گیا، میرا جسم کانپنے لگا۔ میں نے فوراً اسے گاڑی روکنے کو کہا اور وہاں سے اتر گیا۔
قسمت کی ایک اور آزمائش: دوستوں کا دوسرا امتحان
میں نے دوبارہ اپنے دوستوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دال چاول کھا کر پیٹ بھرا اور پھر پی سی او سے اپنے ایک اچھے دوست کو فون کیا۔ وہ میری آواز سن کر خوش ہوا، لیکن جب اسے پتہ چلا کہ میں لاہور میں ہوں اور یہیں رہنا چاہتا ہوں تو وہ پریشان ہو گیا۔ اس نے مجھے گرین ٹاؤن کا راستہ بتایا اور کہا کہ اسے آنے میں دو گھنٹے لگ جائیں گے۔ جب میں نے کہا کہ کوئی بات نہیں، تو اس نے عجیب بہانے بنانا شروع کر دیے، جیسے اس کے والد مذہبی ہیں اور رات 9 بجے دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ میں حیران رہ گیا کہ میرے بچپن کا دوست مجھے لاہور جیسے بڑے شہر میں بے یار و مددگار چھوڑ رہا تھا۔
داتا دربار میں پناہ اور شکیل لنگڑے سے ملاقات
دوستوں کی طرف سے مایوس ہونے کے بعد، میں داتا دربار واپس گیا۔ میں نے سنا تھا کہ وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ دربار کے اندر، میں نے دیکھا کہ لوگ صحن میں آرام سے لیٹے ہوئے ہیں۔ مجھے لگا یہ رات گزارنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ میں نے وہیں ٹھنڈے فرش پر اپنی چپل بغل میں دبائی اور بیگ کو تکیہ بنا کر سو گیا۔ صبح کی اذان سے میری آنکھ کھلی، میں نے لنگر سے دال روٹی کھائی اور دوبارہ دوستوں کو فون کرنا شروع کیا۔
سب نے پہلے کی طرح مجھے ٹال دیا۔ آخر میں ایک دوست نے شکیل لنگڑے کا ذکر کیا، جو 10 سال پہلے لاہور آیا تھا اور اب شراب پیتا، جوا کھیلتا اور غلط کاموں میں ملوث تھا۔ مجھے یاد آیا کہ اس کا نمبر میری ایک کتاب میں لکھا ہوا تھا۔ شکیل لنگڑا میرا بچپن کا دوست تھا، لیکن والدین نے ہمیشہ اس سے دور رہنے کی تلقین کی تھی۔ وہ لنگڑا کر چلتا تھا اور 10 سال پہلے اپنے باپ کی تیسری شادی والے دن لاہور بھاگ آیا تھا۔
ایک “برے” دوست کا خلوص اور انمول سبق
میں نے کانپتے ہاتھوں سے شکیل کا نمبر ملایا۔ دوسری طرف سے ایک گالی کے ساتھ شکیل کی آواز آئی۔ میں نے اسے اپنا تعارف کرایا تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے فوراً مجھے وہیں رکنے کو کہا اور کچھ ہی دیر میں اپنی خستہ حال موٹر سائیکل پر آ گیا۔ وہ نشے میں تھا، لیکن اس نے مجھے اپنے کچے مکان میں لے جا کر دو ماہ تک اپنے ساتھ رکھا۔ اس نے مجھ سے نہ کرایہ لیا اور نہ کھانے کے پیسے، بلکہ الٹا مجھے 200 روپے دیتا تھا۔
اس کے “برے” دوست بھی عجیب تھے۔ جب مجھے ایک کتاب (شہاب نامہ) خریدنے کے لیے پیسوں کی ضرورت پڑی اور شکیل کے پاس پیسے کم پڑ گئے تو اس کے جواری دوستوں نے جوئے کے پیسوں سے چندہ کرکے مجھے 5540 روپے دیے۔ یہ میری زندگی کی پہلی قیمتی کتاب تھی۔ شکیل نے مجھے قلم، کاغذ، اور ڈاک ٹکٹ بھی فراہم کیے تاکہ میں اپنی تحریریں رسالوں کو بھیج سکوں۔
اختتام: دوستی کی سچائی اور ایک گمنام قبر
آج 27 سال گزر چکے ہیں۔ شکیل لنگڑا پولیس مقابلے میں مارا جا چکا ہے۔ اس کی لاش کو لاوارث قرار دے کر دفنایا گیا۔ مزنگ چونگی سے چوبرجی کی طرف جائیں تو میانی صاحب قبرستان میں اس کی گمنام سی قبر آج بھی موجود ہے۔ جب بھی میں اس کی قبر پر جاتا ہوں تو بغیر کچھ پڑھے واپس آ جاتا ہوں، کیونکہ لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسے لوگوں کے لیے بخشش کی دعا نہیں کرنی چاہیے۔
لیکن مجھے لگتا ہے کہ قیامت کے دن، جب کوئی کسی کو نہیں پہچانے گا، شکیل لنگڑا ضرور مجھے پہچان لے گا اور گلے لگا لے گا۔ مخلص دوست قسمت سے ملتے ہیں، اور ان کی قدر کرنی چاہیے کیونکہ دوستی میں فاصلے بڑھ جائیں تو رشتے کمزور ہو جاتے ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسے سفر کی ہے جس میں میں نے دوستوں کی بے رخی اور ایک “برے” شخص کے خلوص کو دیکھا، جس نے مجھے زندگی کا سب سے بڑا سبق سکھایا۔