یہ کہانی ایک ایسی معصوم لڑکی سانیا کے گرد گھومتی ہے، جس کی زندگی نے بچپن ہی سے دکھوں اور محرومیوں کی تصویر بن کر رہ گئی۔ اس کی ماں کا سایہ جلد ہی اس کے سر سے اٹھ گیا، اور اس کی زندگی میں وہ عورت داخل ہوئی جسے دنیا سوتیلی ماں کہتی ہے۔
ظلم اور بے بسی کا سفر:
سانیا کی زندگی کا ہر دن ایک اذیت سے کم نہ تھا۔ اس کی دادی ہمیشہ کہا کرتی تھیں:
“بیٹی، سوتیلی ماں کبھی سگّی ماں کا درجہ نہیں لے سکتی۔”
ان کی باتیں سچ ثابت ہوئیں۔ سانیا کی سوتیلی ماں کا رویہ اتنا سخت اور تلخ تھا کہ ہر صبح اس کے طعنے اور گالیوں سے شروع ہوتی۔ ناشتہ دینے کے بجائے طعنہ ملتا، اور کبھی کبھی جوتے بھی۔ سوتیلی ماں صرف اپنی بیٹی سے محبت کرتی تھی، اور سانیا کو ہمیشہ پرانے کپڑے، پرانی چیزیں، اور ذلت ہی ملتی۔
دادی ہی اس کے دکھ کی واحد ہمراز تھیں، مگر ان کی وفات کے بعد سانیا کا دکھ اور تنہائی دوچند ہو گئی۔
ماضی کی تلخیاں:
سانیا اور اس کی ماں ایک خوبصورت گاؤں میں رہتے تھے۔ اس کے ابّا اکثر شہر جاتے اور کئی کئی دن واپس نہ آتے۔ ان کی واپسی پر ان کے کپڑوں سے اجنبی عورتوں کی خوشبو آتی، اور سوال کرنے پر وہ طیش میں آ جاتے۔ ایک دن دادی نے چچا سے تحقیق کروائی، تو انکشاف ہوا کہ ابّا نے شہر میں دوسری شادی کر لی ہے اور ایک بیٹی بھی ہے۔
یہ دھوکہ سانیا کی ماں سے برداشت نہ ہوا، وہ بیمار پڑ گئیں اور جلد ہی وفات پا گئیں۔ سانیا یتیم ہو گئی اور اس کی زندگی اندھیروں میں ڈوب گئی۔
بچپن کا چھن جانا:
ماں کے جانے کے بعد سوتیلی ماں نے زبردستی سانیا اور دادی کو شہر بلا لیا۔ سانیا کی تعلیم چھڑوا دی گئی، اور اسے گھریلو کاموں میں لگا دیا گیا، جبکہ سوتیلی بہن اسکول جاتی رہی۔ پھر ایک دن سانیا کے ابا ایک حادثے میں چل بسے۔
ابا کے بعد سوتیلی ماں کے ظلم اور بڑھ گئے۔ اس نے سانیا کو گھروں میں کام کرنے بھیجنا شروع کر دیا تاکہ وہ پیسے کما کر لائے۔
جب ظلم حد سے بڑھ جائے:
سوتیلی ماں نے سانیا کا رشتہ ایک ساٹھ سالہ بوڑھے، اسلم، سے طے کر دیا۔ دادی نے مخالفت کی، لیکن وہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ سانیا نے انکار کیا تو اسے بہت مارا گیا، یہاں تک کہ اس کے پاؤں تک جلا دیے گئے۔
آخرکار زبردستی اس کی شادی اسلم سے کر دی گئی۔
خوفناک انکشاف:
اسلم نماز اور عبادت میں مصروف دکھتا تھا۔ اس کے گھر کا ایک کمرہ ہمیشہ بند رہتا۔ ایک دن جب وہ شہر سے باہر تھا، تو پڑوسن نے سانیا کو خبردار کیا:
“تم یہاں نہ رہو، ورنہ قربانی کا بکرا بننے میں دیر نہیں لگے گی۔”
ایک دن سانیا کو وہ بند کمرہ کھلا ملا۔ اندر جا کر وہ کانپ گئی—اسلم ایک شیطان کا پجاری تھا، اور ہر سال کسی کم عمر لڑکی سے شادی کر کے اسے “بالی” چڑھاتا تھا۔
نجات کا لمحہ:
پڑوسن کی مدد سے سانیا نے گھر سے بھاگ کر اپنی باجی کے گھر پناہ لی، جن کے شوہر پولیس میں تھے۔ اسلم اور سوتیلی ماں کو گرفتار کر لیا گیا۔ اسلم سے سانیا کو طلاق دلائی گئی۔
ادھر سوتیلی ماں کی اپنی بیٹی نے اسے دھوکہ دے کر سب قیمتی سامان لے کر اپنے عاشق کے ساتھ فرار ہو گئی۔ سانیا نے صرف اتنا کہا:
“اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔”
ایک نئی صبح:
باجی نے سانیا کا نکاح اپنے ایک شریف نوکر عدیل سے کروا دیا، جس کی بیوی بچے کی پیدائش کے دوران انتقال کر گئی تھی۔ عدیل نے سانیا کو عزت، پیار، اور خوشیاں دیں۔ اب سانیا ایک خوبصورت بیٹے کی ماں ہے اور خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔
اختتام:
سانیا کہتی ہے:
“اللہ نے میری دعاؤں کو سنا، اور مجھے عدیل کی صورت میں ایک ایسا ہمسفر دیا جس نے میرے سارے زخم بھر دیے۔”
سبق آموز پیغام:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ظلم کبھی دوام نہیں پاتا، اور صبر کرنے والوں کو اللہ ضرور جزا دیتا ہے۔ ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح ضرور آتی ہے۔