Adevertisement

سلطان صلاح الدین ایوبی کا حیرت انگیز فیصلہ: ایک قبیلے کی آزادی کی کہانی

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں نے انہیں ایک چونکا دینے والی خبر دی۔ سلطان معظ رینالڈ بادشاہ کے قبضے میں ایک ایسا مسلمان قبیلہ تھا جہاں سپاہیوں کی شہادت پر انہیں دفن نہیں کرنے دیا جاتا تھا، بلکہ رینالڈ کے حکم پر انہیں جلا دیا جاتا تھا۔ رینالڈ کا کہنا تھا کہ اگر اس قبیلے کو وہاں رہنا ہے تو انہیں رینالڈ کی روایات کے مطابق چلنا ہوگا۔

Adevertisement

سلطان صلاح الدین ایوبی یہ سن کر بہت پریشان ہوئے۔ اس سے قبل وہ رینالڈ کے ساتھ ایک معاہدہ کر چکے تھے جس کے تحت دونوں آپس میں جنگ نہیں کر سکتے تھے۔ سلطان نے قبیلے کے بارے میں مزید پوچھا تو معلوم ہوا کہ قبیلے کا سردار رینالڈ کی بیعت کر چکا تھا اور ہر بات اس کی مانتا تھا۔ وہ کہنے کو مسلمان تھا، لیکن پیروی غیر مسلم بادشاہ رینالڈ کی کرتا تھا۔

یہ سن کر سلطان نے کہا: “جب سردار غیر مسلم ہو تو اس کے قبیلے کے لوگ مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں؟” جاسوس نے جواب دیا: “سلطان معظم! آپ کی بہادری، ایمان اور سخاوت کے قصے سن کر ان تمام قبیلے والوں نے اسلام قبول کر لیا ہے، لیکن اس بدقسمت اور بدنصیب سردار کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت نہیں دی۔ وہ سونے کا پجاری ہے اور رینالڈ کی پیروی کرتا ہے۔”

Adevertisement

سلطان کا اضطراب اور خط

سلطان مزید پریشان ہوئے اور کہا کہ وہ اس قبیلے کو ظالم بادشاہ کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ اگر بادشاہ شہید سپاہیوں کو دفن نہیں کرنے دیتا تو وہ انہیں بنیادی حقوق کیسے دیتا ہوگا؟ ان کی ماؤں، بیٹیوں اور بہنوں کی عزت کا کیا ہوگا؟

سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوراً رینالڈ بادشاہ کو ایک سخت خط لکھا۔ اس خط میں انہوں نے فرمایا: “بیشک تمہارے اور میرے درمیان صلح کا معاہدہ ہو چکا ہے، لیکن مجھے خبر ملی ہے کہ وہ قبیلہ جس کے لوگ مسلمان ہیں، لیکن اس کا سردار تمہاری پیروی کرتا ہے، وہ لالچی انسان سونے کا پجاری ہے، اور ہر بات تمہاری مانتا ہے۔ یہ لالچ تم نے اس سردار کو دے کر اپنی بربریت ابھی تک اس قبیلے پر جاری رکھی ہوئی ہے۔ میری معلومات کے مطابق اس قبیلے کے شہید سپاہیوں کو تمہارے سپاہی دفن بھی نہیں کرنے دیتے بلکہ جلا دیتے ہیں۔ اگر تم نے یہ کام آج کے بعد نہیں روکا تو میں بھی بھول جاؤں گا کہ تمہارے اور میرے درمیان کوئی معاہدہ ہوا تھا۔”

Adevertisement

رینالڈ کی چال اور سلطان کی بصیرت

جب رینالڈ نے یہ خط پڑھا تو فوراً اپنا قاصد سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس بھیجا۔ قاصد نے کہا: “ہمارے بادشاہ نے آپ کو دعوت دی ہے اور کہا ہے کہ آپ آج رات کا کھانا میرے پاس کھائیں اور اس قبیلے کے بارے میں بیٹھ کر صبر و تحمل سے بات کریں۔”

پہلے تو سلطان صلاح الدین ایوبی غصے سے لال ہو گئے کہ وہ کیسے اس بدبخت بادشاہ کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتے ہیں جو اسلام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ پھر تھوڑی دیر سوچنے کے بعد سلطان نے کہا کہ یہاں بات مظلوم اور غریبوں کی ہے، اگر وہ نہ گئے تو اس معاہدے کی آڑ میں وہ ظالم بادشاہ اس قبیلے والوں پر اسی طرح ظلم ڈھاتا رہے گا۔ سلطان نے قاصد سے کہا کہ وہ بادشاہ کے محل میں ضرور تشریف لائیں گے۔

رینالڈ نے بڑے بڑے کھانوں کا انتظام کروایا اور جب شام کا وقت ہوا تو سلطان اپنے دو سپاہیوں کے ساتھ محل پہنچے۔ رینالڈ نے کہا: “سلطان معظم! سب سے پہلے آپ کھانا کھا لیں، اس کے بعد اس قبیلے کے بارے میں بات کریں گے۔”

رینالڈ سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے بیٹھ گیا۔ سلطان سمجھ چکے تھے کہ اگر بات صرف قبیلے کی ہوتی تو رینالڈ انہیں خط کے ذریعے بھی پیغام دے سکتا تھا، لیکن دعوت پر بلانا اس کی کوئی نہ کوئی چال تھی۔ ادھر رینالڈ نے سلطان کے لیے ایک منصوبہ تیار کر رکھا تھا۔ جیسے ہی انہوں نے کھانا سلطان کے سامنے رکھا تو کھانے کو دیکھ کر سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا: “یہ کھانا میرے سامنے سے ہٹا دو، کیونکہ یہ گوشت کسی حلال جانور کا نہیں بلکہ کتے کا گوشت پکا ہوا ہے۔”

سلطان کی دانش اور رینالڈ کا اعتراف

یہ سن کر رینالڈ نے کہا: “سلطان معظم! شاید آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔” سلطان نے رینالڈ کی بات کو کاٹتے ہوئے پوچھا: “یہ لڑکی کون ہے اور کہاں سے آئی ہے؟” رینالڈ نے کہا: “یہ میری کنیز ہے اور آج ہی مجھے ایک دوست بادشاہ نے تحفے میں دی ہے اور اس نے کہا ہے کہ یہ ایک پاکدامن عورت ہے، آج تک اس کو کسی مرد نے چھوا تک نہیں۔”

یہ سن کر سلطان معظم نے فرمایا: “بادشاہ رینالڈ! اگر یہ گوشت حلال جانور کا بھی ہوتا تو بھی میں کبھی اس کو ہاتھ نہ لگاتا۔” یہ سن کر بادشاہ بڑا حیران ہوا اور پوچھا: “سلطان معظم! ایسی کیا بات ہے؟” تو سلطان نے کہا: “یہ جو عورت گوشت لے کر آئی ہے، یہ بدکردار عورت ہے، آج تک یہ کئی مردوں کے ساتھ سو چکی ہے۔”

پھر سلطان نے مزید حیران کن بات کہی: “اس عورت کی بات چھوڑو، تم اتنے بڑے بادشاہ ہو کر بھی اپنے باپ کی اولاد نہیں۔” یہ سن کر رینالڈ نے کہا: “مسلمانوں کے سلطان! اگر تم آج میرے گھر میں موجود نہ ہوتے تو شاید میرے اور تمہارے درمیان جنگ کھڑی ہو جاتی۔”

سلطان نے کہا: “اگر یہ میری تینوں باتیں غلط ہوں تو پھر تمہارا جنگ کرنا جائز بنتا ہے۔” رینالڈ بادشاہ نے کہا: “اے مسلمانوں کے سلطان! اگر آپ اپنی تینوں باتوں کو ثابت کر دیں تو اس قبیلے کو میں مکمل طور پر آزاد کر دوں گا اور تمہارے حوالے کر دوں گا۔”

سچائی کا انکشاف اور قبیلے کی آزادی

یہ سن کر سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ وہ اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں۔ پھر رینالڈ نے پوچھا: “آپ کو کیسے معلوم کہ یہ گوشت کتے کا پکا ہوا ہے؟” سلطان نے کہا: “جب اس عورت نے میرے سامنے گوشت رکھا تو گوشت کے ہر بوٹی کی طرف چربی ہی چربی تھی اور مسلمان کھانے کو دور سے دیکھ کر پہچان جاتا ہے یہ کھانا حلال ہے یا حرام، اس لیے مجھے پتہ چل گیا کہ گوشت کسی حرام جانور یعنی کتے کا ہے۔”

“اور دوسری بات، جب یہ عورت میرے پاس کھانا لے کر آ رہی تھی تو اس کی نظروں اور اس کے چلنے کے انداز سے ہی مجھے پتہ چل گیا کہ یہ لڑکی بدکردار ہے۔”

“پھر بادشاہ نے کہا میرا تیسرا سوال یہ ہے کہ آپ کو کیسے معلوم ہو کہ میں اپنے باپ کی اولاد نہیں؟” سلطان معظم نے کہا: “جو شخص اپنے مہمان کو کتے کا گوشت اور ایک بدکردار عورت کے ہاتھوں کھلوا سکتا ہے تو وہ اپنے باپ کی اولاد کیسے ہو سکتا ہے؟”

یہ سن کر رینالڈ بڑا شرمندہ ہوا، کیونکہ سلطان کی تینوں باتیں درست تھیں۔ پھر رینالڈ نے اس بات کا اقرار کیا کہ اس نے سلطان کے ایمان کو جانچنے کے لیے کتے کا گوشت بنوایا تھا کہ کیا وہ پہچان بھی کر سکتے ہیں کہ یہ حرام ہے یا حلال۔ اور اس نے اس بدکردار عورت کے بارے میں جھوٹ بولا کہ یہ پاکدامن ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ایک عظیم سلطان بدکردار عورت کے ہاتھوں کھانا کھاتا ہے یا نہیں۔

رینالڈ بادشاہ بڑا ہی شرمندہ ہوا اور اپنے وعدے کے مطابق وہ قبیلہ آزاد کر دیا۔ سلطان نے اس قبیلے کو ہجرت کروا کر اپنی سلطنت میں جگہ دے دی اور کہتے ہیں کہ اس قبیلے کے سردار کو سلطان نے قید کروا کر ایک نیا سردار مقرر کروایا۔ آنے والے وقت میں وہ قبیلہ سلطان کا بہت بڑا ساتھی بن گیا اور وہ واحد قبیلہ تھا جو تاریخ میں بغیر کسی جنگ یا مذاکرے کی بنا پر حاصل کیا گیا۔

Leave a Comment