ابتدائیہ
اللہ کے نام سے شروع جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اس دنیا میں مرد اور عورت کی جنس کے علاوہ ایک تیسری جنس بھی پائی جاتی ہے، جسے اردو میں خواجہ سرا، کھسرا یا زنخا جبکہ عربی میں مخنث کہا جاتا ہے۔ اکثر ہمارے ذہنوں میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس تیسری جنس کو براہ راست مخاطب کیوں نہیں کیا؟ وہ کون سی وجوہات ہیں جن کی بنا پر خواجہ سرا پیدا ہوتے ہیں؟ اور کیا اسلام میں ان سے شادی کی اجازت ہے؟ آئیے ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہیں۔
قرآن اور تیسری جنس کا ذکر
یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں اس تیسری جنس کا ذکر نظرانداز کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو مرد اور عورت ہی کے रूप میں پیدا کیا ہے، اور خواجہ سرا کوئی تیسری جنس نہیں بلکہ ایک جسمانی یا طبی حالت ہے۔ جس طرح بعض بچے پیدائشی طور پر نابینا، گونگے یا بہرے پیدا ہو سکتے ہیں، اسی طرح کروموسومز کی بے ترتیبی کی وجہ سے بچے کی جنس کا تعین مکمل طور پر نہیں ہو پاتا، جس کے نتیجے میں وہ کچھ جسمانی اب نارملٹیز کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔
سائنسی نقطہ نظر: کلائن فیلٹر سنڈروم
جدید سائنس اس کی وضاحت “کلائن فیلٹر سنڈروم” نامی ایک طبی حالت سے کرتی ہے، جسے مشہور سائنسدان ہیری کلائن فیلٹر نے دریافت کیا تھا۔ اس تھیوری کے مطابق:
- کروموسومز کا کردار: ہر انسان میں 23 جوڑے یعنی کل 46 کروموسومز پائے جاتے ہیں۔ عورت میں یہ ‘XX’ اور مرد میں ‘XY’ کی شکل میں ہوتے ہیں۔
- بے ترتیبی: بعض اوقات مردوں میں ایک اضافی ‘X’ کروموسوم پیدا ہو جاتا ہے، جس سے ان کے کروموسومز کی تعداد 46 کی بجائے 47 (XXY) ہو جاتی ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق، ہر 500 میں سے ایک مرد میں یہ تبدیلی واقع ہوتی ہے۔
- نتیجہ: اگر بچے کی پیدائش کے وقت باپ کی طرف سے یہی اضافی کروموسوم (XX یا XY) ماں کے ‘X’ کروموسوم سے مل جائے تو پیدا ہونے والا بچہ پیدائشی طور پر ٹرانسجینڈر ہوتا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ ماں کی طرف سے ہمیشہ ‘X’ کروموسوم ہی آتا ہے، جبکہ جنس کا تعین باپ کی طرف سے آنے والے ‘X’ یا ‘Y’ کروموسوم سے ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے جب باپ کی طرف سے دونوں کروموسومز آ جائیں تو بچے کی جنس غیر واضح ہو جاتی ہے۔
اسلامی نقطہ نظر اور روایات
اسلامی تعلیمات میں بھی اس حوالے سے رہنمائی ملتی ہے۔
- حضرت ابن عباسؓ کی روایت: امام ابو الفرج طوسی اپنی کتاب “تحریم الفواحش” میں حضرت ابن عباسؓ سے ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ “ہجڑے جنات کی اولاد ہیں۔” جب ان سے اس کی وضاحت طلب کی گئی تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حالتِ حیض میں بیوی سے صحبت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ جب کوئی شخص اس حالت میں اپنی بیوی کے پاس جاتا ہے تو شیطان اس سے سبقت لے جاتا ہے۔
- نبی اکرم ﷺ کی دعا: اسی لیے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ جب کوئی اپنی بیوی کے پاس جائے تو یہ دعا پڑھ لے: “اَللّٰھُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا” (ترجمہ: اے اللہ! ہمیں شیطان سے محفوظ رکھ اور ہماری اولاد کو بھی شیطان کے شر سے محفوظ فرما)۔ اس دعا کی برکت سے شیطان انسان اور اس کی اولاد کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
- اللہ کی حاکمیت: قرآن کریم کی سورۃ الشوریٰ میں اللہ تعالیٰ اپنی حاکمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: “آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔ یا انہیں ملا جلا کر (بیٹے اور بیٹیاں دونوں) دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے۔ بے شک وہ جاننے والا، قدرت رکھنے والا ہے۔” (49-50)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر چیز اللہ کے حکم اور قدرت سے ہے۔
خواجہ سرا سے شادی کا مسئلہ
یہ ایک اہم سوال ہے کہ کیا کسی خواجہ سرا سے نکاح کیا جا سکتا ہے؟ اسلامی فقہ میں اس کی وضاحت موجود ہے:
- خنثیٰ مشکل: وہ شخص جس میں مرد اور عورت دونوں کی علامات بالکل برابر ہوں اور کسی ایک جنس کو ترجیح نہ دی جا سکے، اس سے کسی مرد یا عورت کا نکاح شرعاً جائز نہیں ہے۔
- خنثیٰ غیر مشکل: وہ شخص جس میں کسی ایک جنس (مردانہ یا زنانہ) کی علامات غالب ہوں۔
- مردانہ علامات غالب ہوں: اگر مردانہ خصوصیات غالب ہیں تو اسے شرعاً مرد شمار کیا جائے گا اور اس کا نکاح کسی عورت سے جائز ہے۔
- زنانہ علامات غالب ہوں: اگر زنانہ خصوصیات غالب ہیں تو اسے شرعاً عورت شمار کیا جائے گا اور اس کا نکاح کسی مرد سے جائز ہے۔
حضرت علیؓ کا فیصلہ
ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت علیؓ کے دربار میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میرا بھائی ایک خواجہ سرا کی محبت میں گرفتار ہو کر اس سے شادی کر چکا ہے۔ جب حضرت علیؓ نے اس خواجہ سرا سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ مجھ میں مرد اور عورت دونوں کی خصوصیات ہیں اور مجھے ماہواری بھی آتی ہے۔
حضرت علیؓ نے حکم دیا کہ اس کی پسلیاں شمار کی جائیں۔ طبی اور روایتی طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ مرد کی ایک پسلی عورت سے کم ہوتی ہے۔ جب شمار کرنے پر ایک پسلی کم نکلی تو حضرت علیؓ نے فیصلہ صادر فرمایا کہ اسے مرد شمار کیا جائے اور اس کے اور اس کے شوہر کے درمیان علیحدگی کروا دی جائے۔
وراثت کا حق
اسلام نے خواجہ سراؤں کے حقوق کا مکمل تحفظ کیا ہے۔ وراثت میں ان کا حصہ ان کی غالب جنسی علامات کی بنیاد پر طے کیا جائے گا۔ اگر مردانہ علامات غالب ہیں تو مرد کا حصہ ملے گا اور اگر زنانہ علامات غالب ہیں تو عورت کا حصہ دیا جائے گا۔
معاشرتی اور حکومتی ذمہ داریاں
افسوس کا مقام ہے کہ ہمارا معاشرہ، جو اسلامی کہلاتا ہے، ان افراد کو وہ عزت اور احترام نہیں دیتا جو ایک عام مرد اور عورت کو حاصل ہے۔
- والدین کا کردار: والدین کو یہ شعور دینا ضروری ہے کہ اگر ان کے ہاں ایسا بچہ پیدا ہو تو اسے گھر سے نکالنے کی بجائے ایک معذور فرد سمجھ کر اس کی بہترین پرورش کریں اور اسے معاشرے کا ایک کارآمد شہری بنائیں۔
- حکومت کی ذمہ داری: حکومتِ وقت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ان کے لیے روزگار کے دروازے کھولے جائیں تاکہ وہ باعزت طریقے سے زندگی گزار سکیں اور بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہوں۔ اگرچہ اس سلسلے میں قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔
حاصلِ کلام
ہماری آج کی اس گفتگو کا مقصد معاشرے کے اس طبقے کو وہ حقوق دلوانا ہے جو دیگر تمام شہریوں کو حاصل ہیں۔ میری آپ سب سے درخواست ہے کہ خواجہ سراؤں کو حقارت کی نظر سے دیکھنے کی بجائے انہیں بھی وہی عزت اور احترام دیا جائے جس کے وہ حقدار ہیں۔
اللہ پاک ہم سب کو اور اس تحریر کو پڑھنے والے تمام افراد کو کلائن فیلٹر سنڈروم جیسی بیماریوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین۔