میرا نام فردوس ہے۔ میں ایک عام سی عورت ہوں، لیکن میری زندگی کے کچھ تلخ تجربات نے مجھے بہت کچھ سکھایا۔ میری پہلی شادی کم عمری میں ہوئی، اور جلد ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ میری زندگی آسان نہیں ہوگی۔ شوہر کا رویہ سخت اور روایتی تھا، اور میں نے وہ سب کچھ برداشت کیا جسے ایک عورت صبر اور عزتِ نفس کے ساتھ جھیل جاتی ہے۔
ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک بیٹی سے نوازا۔ میری بیٹی میری امیدوں کا مرکز تھی، اور میں نے فیصلہ کیا کہ اسے ایک بہتر زندگی دوں گی، چاہے مجھے کتنی ہی قربانیاں کیوں نہ دینی پڑیں۔
کچھ سال بعد میری زندگی میں ایک نئی شروعات ہوئی۔ میں نے دوسری شادی کی، اور اس بار میری بیٹی کو بھی ایک نیا باپ ملا، جو بظاہر بہت محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا تھا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ میری بیٹی کو تعلیم دے گا، اسے ڈاکٹر بنائے گا، اور ہم سب ایک اچھی زندگی گزاریں گے۔
نیا اسکول، نئی پریشانیاں
میری بیٹی کو ایک نئے اسکول میں داخل کروایا گیا۔ شروع میں سب ٹھیک تھا، لیکن پھر وہ بار بار بیمار ہونے لگی۔ اسکول میں بے ہوش ہو جانا، گھر آ کر تھکاوٹ کا شکار ہونا—یہ سب چیزیں غیر معمولی تھیں۔ میں پریشان تھی اور سوچ رہی تھی کہ مسئلہ کہاں ہے۔
ایک دن میری نظر اس کی ڈائری پر پڑی جس میں استاد کا نوٹ تھا کہ بچی روز اسکول دیر سے پہنچتی ہے۔ اس بات نے میرے دل میں تشویش پیدا کی۔ میں نے خود اسکول جانے کا فیصلہ کیا۔
حقیقت کا سامنا
جب میں اسکول پہنچی تو جو کچھ میں نے دیکھا وہ میری توقعات کے خلاف تھا۔ اسکول کی عمارت خستہ حال تھی، وہاں تعلیم کا کوئی ماحول نہیں تھا، اور بہت سی چیزیں غیر واضح اور مشکوک محسوس ہو رہی تھیں۔
مزید تحقیق کرنے پر مجھے اندازہ ہوا کہ میری بیٹی کو اسکول کے نام پر ایک ایسی جگہ لے جایا جاتا رہا جہاں اس کا مستقبل خطرے میں تھا۔ میں فوراً اپنی بیٹی کو وہاں سے نکال کر گھر لے آئی۔
انصاف کی کوشش
میں نے متعلقہ اداروں سے رابطہ کیا، قانونی کارروائی کی، اور ان تمام عناصر کے خلاف آواز بلند کی جو ایک معصوم بچی کے مستقبل سے کھیل رہے تھے۔ میں نے وہ رشتہ بھی توڑ دیا جو میری بیٹی کی حفاظت میں ناکام رہا تھا۔
نئی زندگی، نیا عزم
آج میں اپنی بیٹی کو ایک محفوظ اور تعلیم یافتہ ماحول میں دیکھ کر شکر ادا کرتی ہوں۔ اس نے نہ صرف تعلیم مکمل کی بلکہ اپنی زندگی کو مثبت راستے پر ڈال دیا۔ میں نے اپنی بیٹی کو سکھایا کہ زندگی میں مشکلات آئیں گی، مگر ہارنا نہیں ہے۔
پیغام:
یہ کہانی کسی ایک ماں کی نہیں، ہزاروں ماںوں کی آواز ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت سی خواتین ایسے حالات کا سامنا کرتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان کی مدد کریں، ان کی بات سنیں اور ان کے ساتھ کھڑے ہوں۔