میں اپنے والدین کی لاڈلی اور اکلوتی بیٹی تھی، جسے دنیا کے دکھ درد اور زمانے کی سختیوں کا کوئی علم نہ تھا۔ میرے والدین اور بھائیوں نے مجھے پھولوں کی طرح پالا تھا اور میری ہر خواہش بن کہے پوری ہوتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ میرے والدین میرے لیے ایک ایسا رشتہ چاہتے تھے جہاں میں ہمیشہ خوش رہوں اور مجھے کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہ ہو۔ کئی رشتے آئے مگر میرے والد کو کوئی بھی میرے شایانِ شان نہ لگا، کیونکہ ان کے نزدیک میری خوشی ہر چیز سے بڑھ کر تھی۔
آخرکار، ان کی تلاش ایک نہایت امیر اور کاروباری خاندان پر ختم ہوئی۔ میرے شوہر کا کاروبار عروج پر تھا اور ان کا گھرانہ بھی بہت سلجھا ہوا تھا۔ میرے والدین کو اطمینان تھا کہ انہوں نے میری زندگی کا بہترین فیصلہ کیا ہے۔
خوابوں جیسی شروعات اور اچانک طوفان
شادی کے ابتدائی دن کسی خواب کی طرح خوبصورت تھے۔ ایک شاندار شادی کے بعد ہم بیرونِ ملک ایک مہینے کے طویل ہنی مون پر گئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ میری زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے۔ لیکن یہ خوشی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکی۔
ہنی مون کے آخری دنوں میں میرے سسر کی ایک پریشان کن کال نے سب کچھ بدل دیا۔ ہم فوراً واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ہمارے خاندانی کاروبار کو شدید نقصان پہنچا ہے اور وہ تباہی کے دہانے پر ہے۔ اس صدمے کو میرے سسر برداشت نہ کر سکے اور دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
آزمائش کی گھڑی اور ایک بیوی کا کردار
سسر کے انتقال کے بعد سارے کاروبار اور قرضوں کا بوجھ میرے شوہر پر آ گیا۔ ہم عرش سے فرش پر آ چکے تھے۔ میرے شوہر نے ڈوبتے کاروبار کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔
ان مشکل دنوں میں مجھے اپنی ماں کی وہ بات یاد آئی جو انہوں نے رخصتی کے وقت کہی تھی: “بیٹی، حالات جیسے بھی ہوں، اپنے شوہر کا ساتھ کبھی مت چھوڑنا۔” میں نے اپنے شوہر کو اپنا وہ پلاٹ بیچنے کا مشورہ دیا جو میرے والد نے مجھے تحفے میں دیا تھا، لیکن انہوں نے غیرت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ اپنی محنت سے سب کچھ دوبارہ حاصل کریں گے۔
وہ رات جس نے میرا بھروسہ توڑ دیا
ایک شام میرے شوہر نے مجھے ایک اہم کاروباری پارٹی میں جانے کے لیے تیار ہونے کو کہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آج ایک بڑا کانٹریکٹ مل گیا تو ہماری ساری مشکلات دور ہو جائیں گی۔ میں نے ان کے کہنے پر سرخ ساڑھی پہنی اور ہم ایک شاندار بنگلے میں پہنچ گئے۔
پارٹی میں سب کچھ ٹھیک تھا، لیکن پھر اچانک میرے شوہر کہیں نظر نہیں آئے۔ میں نے انہیں فون کیا مگر کوئی جواب نہ ملا۔ میری پریشانی اس وقت انتہا کو پہنچ گئی جب میں نے دو ملازموں کو آپس میں یہ کہتے سنا کہ، “لگتا ہے اس لڑکی کا شوہر کانٹریکٹ کے لیے اسے سیٹھ صاحب کے پاس چھوڑ کر چلا گیا ہے۔”
یہ سننا تھا کہ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میری روح فنا ہو گئی اور میں وہیں صوفے پر بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ میں دعا کر رہی تھی کہ یہ سب جھوٹ ہو۔
بھروسے کی جیت اور کامیابی کا سورج
کچھ لمحوں بعد، جب میں ہر امید کھو چکی تھی، میں نے اپنے شوہر کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا۔ انہیں دیکھ کر میری جان میں جان آئی۔ انہوں نے میری حالت دیکھ کر مجھے تسلی دی اور بتایا کہ جس آدمی سے کانٹریکٹ پر دستخط لینے تھے، وہ اسی رات ملک سے باہر جا رہا تھا، اس لیے انہیں فوراً ایئرپورٹ جانا پڑا۔ انہوں نے مجھے ایک میسج بھی کیا تھا جو میں نے اپنی پریشانی میں نہیں دیکھا تھا۔
اس رات میرے شوہر کو وہ کانٹریکٹ مل گیا۔ یہ ہماری کامیابی کی طرف پہلا قدم تھا۔ اس دن کے بعد میرے شوہر نے دن رات محنت کی اور میں ہر قدم پر ان کا حوصلہ بن کر ان کے ساتھ کھڑی رہی۔ اللہ نے ہماری سنی اور ہم نے نہ صرف اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ کامیاب ہوئے۔
آج میں سوچتی ہوں کہ برے حالات انسان کو توڑنے نہیں بلکہ اس کے رشتوں کو مضبوط بنانے آتے ہیں۔ میری ماں کی دعا اور میرے شوہر پر میرے اٹل بھروسے نے ہمیں اس مشکل وقت سے نکالا۔ اگرچہ آج ہمارے پاس سب کچھ ہے، لیکن اس رات کا خوف مجھے آج بھی کسی ایسی پارٹی میں جانے سے روکتا ہے۔